انٹرنیشنل

بھارت میں مودی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت، اندرونی تحریکیں اور پاکستان سے بڑھتی کشیدگی

بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اندرونی طور پر شدید عوامی دباؤ اور احتجاجات کی زد میں ہے

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک)بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اندرونی طور پر شدید عوامی دباؤ اور احتجاجات کی زد میں ہے۔ ملک بھر میں مختلف سماجی، سیاسی اور مذہبی گروہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ کسان، اقلیتیں، اپوزیشن جماعتیں اور مزدور طبقہ سبھی اپنے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، اور یہ سلسلہ روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سب سے نمایاں کسان تحریک ہے، جس میں پنجاب اور ہریانہ کے ہزاروں کسان دہلی کی جانب مارچ کرتے ہوئے "دہلی چلو” کا نعرہ لگائے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ تمام فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (MSP) کی قانونی ضمانت دی جائے، قرضے معاف کیے جائیں اور بزرگ کسانوں کے لیے باقاعدہ پنشن مقرر کی جائے۔ 2020 کی کسان تحریک کے بعد یہ ایک اور بڑی لہر ہے، جو مودی حکومت کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکی ہے۔

اسی دوران، وقف(ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف بھی بھارت کی مسلم برادری سراپا احتجاج ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مجلس اتحاد المسلمین جیسے اداروں کی قیادت میں ملک بھر میں "وقف بچاؤ، آئین بچاؤ” کے نعرے گونج رہے ہیں۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق پر حملہ ہے، جس سے ملک میں اقلیتوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔

دوسری جانب، بھارت کی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس (I.N.D.I.A) تشکیل دیا ہے۔ اس اتحاد کا مقصد جمہوریت، آئین، اور سیکولر اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے مودی حکومت کو انتخابی میدان میں شکست دینا ہے۔ اتحاد میں کانگریس، عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس سمیت 26 سے زائد جماعتیں شامل ہیں جو حکومت کے خلاف ایک وسیع محاذ قائم کر چکی ہیں۔

کمیونسٹ جماعتوں کی زیر قیادت آل انڈیا کسان مہاسبھا بھی میدان میں ہے، جو زرعی اصلاحات کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ ان تنظیموں کا دعوی ہے کہ مودی حکومت بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسانوں کے حقوق سلب کر رہی ہے۔

اندرونی بحران کے ساتھ ساتھ بھارت کی خارجہ پالیسی میں بھی تنا ؤبڑھ رہا ہے۔ اپریل 2025 میں کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے کے بعد بھارت نے فوری طور پر پاکستان پر الزام عائد کیا، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے، سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں، ویزا خدمات معطل ہو گئیں، اور بھارت نے پانی کی فراہمی روکنے کی دھمکی بھی دی۔ پاکستان نے اسے کھلا جنگی اعلان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی خودمختاری کا ہر صورت دفاع کرے گا۔

مودی حکومت ایک طرف اندرونی طور پر عوامی بغاوت کا سامنا کر رہی ہے، تو دوسری طرف پاکستان سے تعلقات میں کشیدگی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ بھارت کے اندر بڑھتی ہوئی تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام اب مزید خاموش رہنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت، سماجی انصاف، اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے عوام کی یہ جدوجہد نہ صرف بھارت کی داخلی سیاست کو متاثر کرے گی بلکہ خطے کے امن پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button