تحریر: شکیلہ فاطمہ
آجکل خطوط کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے، آغاز اسلام ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط سے ہوا۔ اس خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے ملنے والے ریلیف کو بنیاد بنا کر عدلیہ کی آزادی کیلئے درخواست کی گئی اور ان ججوں کے ذاتی مفادات اور واقعات کی بنیاد پر کہا کہ ان پر رشتہ داروں، دوستوں اور مقتدرہ کے پیغامات کے ذریعے دبا ؤ ڈلوا کر غلط فیصلے کروائے گئے یعنی انہوں نے غلط فیصلے کرنے کا اعتراف کیا اور الزام سابق آرمی چیف، سابق چیف جسٹس اور کچھ دیگر ججز، سابق حکمران عمران خان اور ان کے رفقاء شہزاد اکبر وغیرہ پر لگا دیا لیکن یہ الزامات لگاتے ہوئے انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ الزام کس پر لگا رہے ہیں۔ ملزمان کا پتہ تب چلا جب سات ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے گذشتہ روز لائیو سماعت کی اور جب جناب جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ واقعات کاتعلق ماضی سے ہے اور شوکت صدیقی کے فیصلے کو بنیاد بنایا گیا ہے تو اس کی تحقیقات کی ابتدا بھی اسی وقت سے ہوگی۔
واضح رہے کہ ان چھ ججز کا ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں ہے جسکو کہا جا سکے کہ یہ فیصلہ اس جج کے legal acumen کا شاہکار ہے اور اس فیصلے میں قانون کی نئی جہتوں کو زیر بحث لا کر زبردست فیصلہ دیا گیا ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے یہ جج صاحبان ہر کیس میں غیر ضروری باتیں اور بیوروکریسی کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ابھی حال ہی میں وفاقی بیوروکریٹس پر توہین عدالت کا الزام لگا کر سزائیں سنائیں گئیں لیکن ابھی بھی ان پر دبا ہے۔ عجیب بات ہے ان میں سے وہ جج بھی ہیں جو اپنے چیمبر کے وکلا کو کیس دلوا کر ان سے خود پر دباؤ ڈلوا لیتے ہیں اور پھر فیصلہ قیامت کی پندرہ تاریخ تک ملتوی کر دیا جاتا ہے میرے ذاتی تجربے میں ایسے مقدمات ہیں جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں اور جنکا تعلق مفاد عامہ سے ہے۔
ابھی اس خط پر بحث جاری تھی کہ معلوم ہوا کہ اسلام ہائیکورٹ، سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے کچھ ججز کو بھی خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں خطرے کے نشان کے ساتھ کچھ پوڈر بھی بھیجا گیا ہے۔ مبینہ طور پر یہ خطوط سیٹلائٹ ٹان راولپنڈی کے ڈاک خانے سے کسی ریشمہ یا ریشم نے بھیجے ہیں ۔ ان خطوط نے کھلبلی مچا دی اب سی ٹی ڈی اور دیگر ایجنسیاں پوسٹ بکسوں اور ڈاک خانے کے طواف فرما رہے ہیں لیکن جب کسی عام شہری کو جان سے مار دینے والی دھمکی کے خطوط موصول ہوئے اور ایجنسیوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ٹرخا دیا۔ چلو کم از کم اب ہی ریشماں مل جائے تاکہ ایسی حرکت کرنے والے دیگر بدمعاشوں کو معلوم ہو جائے کہ انکو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ابھی ان خطرناک خطوط پر مقدمات کے اندراج کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور خط منظر عام پر آگیا۔
یہ خط جناب چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھ دیا۔ انہوں نے اس خط میں اپنی قابلیت اور ذہانت کے بارے میں کھل کر اظہار کیا لیکن چند سیکنڈز میں سینکڑوں ضمانتیں دینے اور قانون کو مرضی کے معنی دینے کا ذکر نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ وہ اکتیس سال سے بطور جج ملک و قوم کی خدمت میں دل و جان سے مصروف ہیں اور شکوہ کناں ہیں کہ اس کے باوجود انکو سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا حالانکہ سپریم کورٹ میں تین اسامیاں ابھی خالی ہیں اور چیف جسٹس سپریم کورٹ پر اقربا پروری کے الزامات بھی لگا دئیے لیکن ہماری معلومات کے مطابق جسٹس افغان سے جنہیں بلوچستان ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لایا گیا ہے، کا قاضی صاحب سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے کیونکہ اقربا پروری تو رشتہ داروں اور انتہائی قریبی ساتھیوں کو نوازنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ چونکہ چودہ اپریل سے مدت ملازمت پوری کر کے منصبی کے اس اعلی عہدے سے فارغ ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ سرکاری ملازم کیلئے موت دو بار ہوتی ہے ایک جب وہ ریٹائر ہوتا ہے اور دوسری جب وہ فوت ہوتا ہے۔
ان پاکستانی خطوط کے علاوہ برطانیہ کے ججوں نے بھی حکومت کو خط لکھا ہے لیکن ہمارے ججوں کے خطوط سے یکسر مختلف ہے کیونکہ اس میں برطانیہ کے ججوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے غزہ میں قبیح ظلم کے پیش نظر اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کیا جائے۔ دونوں ملکوں کے ججوں کے خطوط سے ہمارے اور برطانیہ کے ججز کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے ججز اپنی ذات کے بارے سوچتے ہیں اور برطانیہ کے جج غزہ کے مظلوموں کے بارے سوچتے ہیں۔ لیکن ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ” ہم نے صنم کو خط لکھا۔۔۔ "