کھوج بلاگ

”گندم کا کاشتکار بنام سرکار ”

تحریر : شکیلہ فاطمہ
گندم سکینڈل ہر آنے والے دن بدترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور کئی ایلیٹ کلاس چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کاشتکار گندم کو لیکر رو رہے ہیں، حکومت خریداری سے یکسر منکر ہے اور ابھی تک سونے جیسی گندم کا ایک دانہ بھی نہیں خریدا گیا ۔ اس وقت کسان 2800 سے لیکر 3200 کے درمیان اپنی سونے جیسی گندم بیچنے پر مجبور ہیں اور ابھی سے سوچ رہا ہے کہ وہ اگلے سال گندم کاشت نہیں کرے گا۔ ادھر ایک اور انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ جو گندم درآمد کی گئی اس میں سے 14 لاکھ میٹرک ٹن گندم کیڑوں والی اور خراب ہے جو انسانوں کے کھانے کے قابل نہیں ہے لیکن حکومت بضد ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو کیڑوں والی گندی گندم کھلائے ‘جو شہروں میں آباد ہیں اور جو اپنی گندم نہیں اگاتے ہیں اور ملوں کے آٹے پر گزارہ کرتے ہیں انکو یہ چودہ لاکھ میٹرک ٹن گندم کھلائی جائے گی ۔ دوسری طرف ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ یہ گندم صرف نگراں دور میں نہیں منگوائی گئی بلکہ تقریبا سات لاکھ میٹرک ٹن گندم مارچ 2024ء میں موجودہ حکومت کے سنہری دور حکومت میں پاکستان لائی گئی۔ اب نگراں اور ریگولر دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں لیکن دوسری طرف یہ وضاحت بھی سامنے آئی ہے کہ نگراں دور میں منگوائی گئی گندم سے متعلق کوئی انکوائری نہیں ہورہی بلکہ اب انکوائری کو صرف مارچ تک محدود کر دیا گیا یعنی 34 لاکھ میٹرک ٹن میں سے 27 لاکھ میٹرک ٹن منگوائی گئی گندم کو انکوائری کے عمل سے نہیں گزرنا پڑے گا خواہ اس میں کیڑے تھے یا مٹی تھی۔ اب صرف سات لاکھ میٹرک ٹن گندم متنازعہ ہے جو مارچ کے مہینے میں پاکستان اپنے کیڑوں کے ساتھ پہنچی۔ یہ کیسا کھیل ہے جو کسان کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے کبھی انکوائری کے لبادے میں، کبھی نگرانوں کا نام لیکر، کبھی ملی بھگت کو تلاش کرنے کے بہانے، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ گھناؤنا کھیل ہے۔ اس میں نگراںاور ان سے پہلے والے شامل ہیں ۔ اس لئے یہ بات تو عیاں ہے کہ کاشتکار اور عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آئی پی پیز کی طرح اس دھندے میں بھی کچھ خاص ہیں جنکو امیر سے امیر تر بنایا جا رہا ہے۔ جیسے بجلی بنانے والوں سے بجلی خریدے بغیر عوام کا خون نچوڑ کر انکی جیبوں کو بھرا جا رہا ہے اسی طرح کیڑوں والی گندم منگوا کر کچھ خاص کا احساس امیری کیا گیا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باہر سے کیڑوں والی گندم منگوا کر آٹا اور روٹی سستی کیوں نہ کی گئی اس لئے کہ مبینہ طور پر 85 ارب سے زیادہ کا چونا گندم منگوانے والوں نے لگایا اور اتنا ہی فلور ملوں نے کیڑوں سمیت اس گندم کو آٹا اور دیگر مصنوعات بنا کر لگایا۔ لیکن غریب آدمی کو وہی روٹی مہنگی بیچی گئی اور اب جب ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے کہ مقامی سونے جیسی گندم مارکیٹ میں آ چکی ہے تو 16 روپے اور 20 روپے کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے۔ اس پر کیسے عمل ہوگا۔ ڈالر کے نام پر مہنگی ہونے والی بجلی گیس تیل کیا سستے ہوئے ہیں، کیا تندور والے کو بجلی اور گیس بھی پرانے ریٹ پر مل رہی ہے ؟ بالکل نہیں ، نہ بجلی سستی ہوئی نہ گیس اور نہ ہی لیبر چارجز پھر کس بنیاد پر تندور والا روٹی سستی کرے گا ؟ سب ڈرامہ بازی کی جارہی ہے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہو رہے اگر کوئی عملی کام ہو رہا ہے تو وہ عوام کو سزا دینے ، کاشتکار کو خاندان سمیت مارنے اور ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر ہو رہا ہے۔ بجائے اس کہ کہ کسان کو بچایا جائے اور پچھلے سال والے ریٹ پر ہی گندم خرید لی جائے بلکہ اس کے برعکس صرف انکوائریوں، الزام تراشیوں اور عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ اور اسی دوران اتنی دھند پھیلائی جارہی ہے کہ عوام سے چینی چھیننے کا پروگرام طے کیا جا رہا ہے تاکہ ایک بار پھر ملک میں چینی کا بحران پیدا کیا جائے اور یہ بحران پیدا کرنے کیلئے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اب تو عوام کو پتہ ہے کہ بجلی بنانے والے، فلور ملوں والے، کیڑوں والی گندم منگوانے والے، شوگر ملوں کے مالک اور چینی برآمد کرنے والے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ابھی گندم بحران کب تک چلے اللہ جانتا ہے لیکن طے ہے کہ اگلے سال قحط کا سال ہوگا۔ ابھی مزید عدالتی بحران، انتظامی بحران، سیاسی بحران ، معاشی بحران وغیرہ پیدا کئے جائیں گے اور اسی اثنا میں عالمی سطح پر اور خطے میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں جن سے نمٹنے اور کوئی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے یہ طبقہ اس میں مصروف ہوگا کہ ان بحرانوں اور تبدیلیوں سے کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ۔
”تازہ ہوا کے شوق میں اے وارثان شہر۔اتنے نہ در بناو کہ دیوار گر پڑے۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button