کھوج بلاگ

وہ آنکھیں ……

تحریر: آصف علی درانی
فروری کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو چوک چوراہوں ، بازاروں میں اور تعلیمی اداروں کے باہر سرخ گلاب کے پھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ زیادہ تر کم عمر بچے یہ پھول فروخت کرتے ہیں۔دنیا بر میں ہر چودھاں فروری کو یوم محبت یعنی ویلنٹائن ڈے ویلنٹائن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے۔کہ کء سال پہلے جرم کرنے پر بادشاہ سلامت نے ویلنٹائن کو پھانسی دی تھی اور پھانسی سے قبل ویلنٹائن نے اپنی محبوبہ کو جیل سے ایک کارڈ بھیجا جس پر لکھا تھا آپ کا ویلنٹائن ۔۔۔۔۔ اس کے بعد یہ جملہ اتنا مشہور ہوا کہ لوگ اب ہر سال چودھاں فروری کو ویلیںٹائن کی یاد میں یہ دن مطلب یوم محبت مناتے ہیں۔یہ سب باتیں ایک طرف لیکن لفظ محبت کے ساتھ بہت سے سوالات جوڑے ہوئے ہیں۔یو سمجھے کہ کوئی لفظ محبت بولتا یا کہتا ہے تو انگنت سوالات ذہن انسانی میں پیدا ہوتے ہیں۔پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت کیا ہے؟ بہت سے لوگ اس سوال کا جواب کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ محبت احساس ہے جس کو انگلش میں فیلنگز کہتے ہیں۔تو اس کے ساتھ ذہن میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔کہ یہ احساس کیا ہے؟اس سوال کے بعد بہت سے لوگ اکثر خاموش ہو جاتے ہیں۔محبت کیا ہے؟ کے جواب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عزت و احترام کا نام ہے۔ایسے بہت سے الفاظ ہیں جن کو لوگ مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور اس کو بیان کرتے ہیں اس میں ایک لفظ محبت کا بھی ہے۔بعض ایسے افراد بھی اس معاشرے سماج میں موجود ہے جو کہتے ہیں کہ ہم محبت کرتے ہیں لیکن ان افراد کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ محبت کیا ہے؟ یا کسے کہتے ہیں؟ اگر کوئی ان لوگوں سے سوال بھی کریں تو وہ فورا یہ جواب دیتے ہیں کہ محبت تو بس محبت ہے اسکی کیا معنی ہوسکتی ہے۔اصل میں اس قسم کے لوگ فضول میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔مطلب کسی انسان کو کوئی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں اس چیز کی حقیقت اس کو معلوم نہیں اور وہ یہ کام جوش و جذبے سے کرتے ہیں۔تو یہ کلی حقیقت ہے کہ وہ صرف اپنا وقت ضائع کررہا ہے۔ محبت کی بھی بہت اقسام ہیں کوئی کتابوں سے محبت کرتا ہے تو کوئی کسی دوسرے چیزوں کے ساتھ محبت کرتاہے ۔ بعض خفیف العقل بھی ہوتے ہیں کہ اس کو جس چیز پر دل آجاے مطلب پسند آجاے اس چیز کے قریب جانا شروع کرتے ہیں باقی اس چیز کے بارے میں اس کو کوئی علم نہیں ہوتا نہ اس چیز کی حقیقت کے بارے میں بس ہر وقت اس کے دماغ پر وہ چیز وہ شخص سوار ہوتا ہے۔دانشور اس بارے میں یہ کہتا ہے کہ ہر وہ احساس جو انسانی ذہن میں کسی اندرونی یا بیرونی محرک سے پیدا ہوتی ہے تصور کہلاتی ہے جنون کے متعلق فلسفی کہتا ہے تصورات اور تخیلات کا دلیل اور ثبوت سے رشتہ ٹوٹ جانے کو جنون کہتے ہیں۔ان دو سٹیٹمنٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص کسی ایسے انجان چیز سے محبت شروع کرتا ہے یا محبت ہو جاتا ہے تو اصل میں اس انسان کے اندرونی یا بیرونی محرک سے یہ جزبہ پیدا ہوتا ہے۔اس کو روکنا انسان کی بس میں ہے وہ ان محرکات کو روک سکتا ہے لیکن اگر وہ نہیں نہیں روک سکتا یا وہ خود یہ نہیں چاہتا تو یہ جنون ہے بعض لوگوں کے خیال میں یہ ذہنی بیماری ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک اساسی مسلہ یہ بھی ہے یہاں پر بعض شعرا جب شعر لکھتا ہے یا بولتا ہے تو اس میں وہ محبوب کی ہونٹ ، لب ، آنکھ اور رخسار کا ذکر بہت کثرت سے کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے موجودہ دور میں محبت کا وہ مقام نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ بس شاعر کے دل میں جو کچھ بھی آئے وہ بول یا لکھتا ہے محبت کے علاہ بھی بہت کچھ ہمارے سماج میں موجود ہے بہت سے ایسے موضوعات ہیں کہ اس پر لکھنے کی ضرورت ہے لیکن زیادہ تر شعرا معاشرے کا خیال نہیں رکھتے کہ میں کیا لکھا رہا ہوں۔ ایسی وجہ سے جب کوئی محبت کا نام لیتا ہے تو فورا لڑکی کا خیال ذہن میں آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے موجودہ دور میں بہت سے نوجوان ذہنی بیمار ہے۔ آج سے جند دن پہلے عصر کے وقت میں ایک بڑے پارک میں چہل قدمی کررہا تھا مجھے سرسبز جگہیں بہت پسند ہے دوران چہل قدمی میں نے دیکھا ایک درخت کے نیچے ایک نوجوان بیٹھا تھا اس کے ساتھ کتابیں بھی پڑی تھیں وہ شکل سے بہت افسردہ لگ رہا تھا۔کچھ وقت گزرنے کے بعد میں اس نوجوان کے قریب گیا ان سے ملا اور اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا اس نوجوان سے کہا کہ میرے بیٹھنے پر آپکو تو کوئی اعتراض نہیں اس نے کہا نہیں میں نے اپنا تعارف کیا کچھ رسمی گفتگو کی پھر اس نے بھی اپنا تعارف کیا کہا کہ میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں۔اس نے کہا کہ میں روز یونیورسٹی سے چھوٹی کے بعد یہاں پر آتا ہوں لیکن میں نے آپکو پہلے یہاں نہیں دیکھا تھا اس طرح گفتگو شروع ہوئی میں نے کہا میں تو روز یہاں اکیلے چہل قدمی کی لیے آتا ہوں لیکن آپ کو پہلی بار دیکھا آپ نے تو بتایا کہ میں میڈیکل کا سٹوڈنٹ ہوں لیکن آپکے پاس تو شاعری کی کتابیں ہیں۔میرے سوال کے بعد اس نے ایک اداس شعر سنایا میں نے کہا واہ واہ۔۔۔ اس کے بعد اس نے دوسرا شعر سنایا پھر میں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ شاعر بھی ہے اور میڈیکل کے سٹوڈنٹ بھی تو اس نے انکار میں سر ہلایا اداس آنکھوں سے کے ساتھ میری طرف دیکھا بولا شاعر نہیں ہوں۔ میں نے سوال کیا۔ آپ یہاں سٹڈی کے لیے آتے ہو؟اس نے کہا نہیں بس ویسے باہر کی دنیا سے یہاں پر سکون ہے اور خاموشی ہے اس لیے میں نے کہا آپ کے پاس شاعری کی کتابیں ہیں آپ اپنی میڈیکل کورس کی کتابیں یہاں کیوں نہیں پڑھتے میرے خیال میں آپکو شاعری بہت پسند ہے۔وہ خاموش بیٹھا تھا میری باتیں سن رہا تھا ایک گہری سانس لینے کے بعد اس نے کہا وہ آنکھیں یہ تو ان آنکھوں کا جادو ہے۔ میں نے اس نوجوان سے کہا اگر آپکی اجازت ہوں تو میں آپ سے دو تین اور سوالات پوچھوں۔۔۔اگر اجازت ہو۔۔۔ میں نے اپنا پورا تعارف کروایا کہا میں فلاں دفتر میں کام کرتا ہوں اور کالم وغیرہ بھی لکھتا ہوں اگر آپ اپنی کہانی مجھے بتادے تو میرے علم میں اضافہ ہوگا اور تحریر بھی لکھوں گا۔اس کہا آج کے بعد ہم دونوں دوست ہے لیکن ایک شرط پر اس نے طنزیہ انداز میں کہا آپ صحافی تو وہ سوالات بندے سے پوچھتے ہیں جن کا اسے خود بھی علم نہیں ہوتا۔اس نے کہا میرے دو شرائط ہیں پہلا آپ اپنے تحریر میں میرا نام نہیں لکھوں میں نے کہا ٹھیک نہیں لکھوں گا لیکن وہ ڈرتا تھا کہا مجھے اعتبار نہیں ہے میں نے کہا ایک طرف آپ نے کہا کہ آج کے بعد ہم دونوں دوست ہے اب کہ کہتے ہوں کہ آپ پر اعتبار نہیں۔۔۔ اس نے کہا ٹھیک ہے دوست دوسرا شرط اس نوجوان نے بتایا لیکن وہ میں آپ لوگوں کو بعد میں بتا گا ۔ اس نے اپنی کہانی شروع کی کہا کہ ایک دن ہمارے یونیورسٹی میں ایک سیمینار تھا ظاہر سی بات ہے میں میڈکل کا طالب علم ہوں تو دوسرے یونیورسٹیوں کی لڑکیاں اور لڑکے ہمارے یونیورسٹی میں آئے تھے۔ایک بڑا سیمینار تھا۔ہال میں بہت زیادہ تعداد تھیں۔اس دوران میری نظر ایک لڑکی کی آنکھوں پر پڑ گئی اور اس لڑکی کی آنکھیں اتنی خوبصورت تھی کہ کیا بتاؤں میں عجیب کشمکش میں تھا کہ اس لڑکی سے کیسے ملو گا ڈر لگ رہا تھا کہ ملو گا تو کیا کہوں گا یہ تو باہر سے آئی ہے۔میں کچھ اپنے ذہن میں کچھ لفظ تیار کررہا تھا کہ ملو گا تو یہ کہوں گا پھر دل میں عجیب قسم کے وسوسے پیدا ہوتے تھے کہ کہی بڑی ہنگامہ نہ ہوجاے میں عجیب کشمش میں تھا ہال میں جگہ بھی نہیں تھی میں کھڑا تھا اور لڑکے بھی کھڑے تھے اس دوران وہ میری لڑکی میری آنکھوں سے اچانک غائب ہوگئی میں کافی پریشان ہوا خیر میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اور وہ مجھے ملی میں انکی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا اس کی آنکھیں بہت خوب صورت تھی میں نے اس نوجوان سے سوال کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے میرا سوال کاٹ دیا اور بس اس لڑکی کی آنکھوں کی تعریفیں کررہا تھا۔ساتھ ساتھ غمگین اداس شاعری بھی سناتا میں اس نوجوان کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کیا ہوا تھا اس نوجوان کے ساتھ خیر وہ اپنی کہانی سنا رہا تھا میں نے کہا دوست جلدی کروں مجھ بس مجھے آخری منظر بتا آخر کیا ہوا تھا اس دوران وہ نوجوان رونے لگا اس کی آنکھوں سے آنسوؤں نکلے میں نے کہا مرد روتا نہیں یہ تم کیا کررہے ہوں۔اس نوجوان نے مجھ سے کہاکہ اس جیسی آنکھیں مجھے کہا ملے گی میں نے کہا یار حوصلہ کروں اپنا ٹیشو دیا کہا اپنی آنسو صاف کردو اس نے کہا کہ جس وقت ہال سے نکلی تو ایک بندی اس کے ساتھ تھا میری ایک لڑکی دوست ہے میں نے اسے ریکویسٹ کیا کہ اس لڑکی کا پتہ کرلو کہ یہ کہا اور کونسی یونیورسٹی سے آئی ہے میں نے بہت منت سماجت کی کہ پلیز آپ پوچھوں اس لڑکی سے جب میری دوست گی اور بات کی اس خوب صورت آنکھوں والی لڑکی سے تو اس نے کہا میں فلاں یونیورسٹی سے آئی ہوں اور جو بندہ ہال سے اس لڑکی کے ساتھ نکلا تھا وہ اس کا ہونے والا شوہر تھا۔ بس یہ تھی ساری کہانی میں نے پوری کہانی سنی اور مسکرایا اس نوجوان سے سوال کیا اگر اس لڑکی کی آنکھیں خوب صورت نہیں تھی تو تم اس سے محبت کرتے وہ خاموش ہوگئے میں نے کہا چلوں اٹھا آپ کا منزل کہے دور ہے اور آپ آنکھوں کی خاطر اپنی سٹڈی کی بجائے شاعری کی کتابیں پڑھ رہے ہوں۔اور میں نے اس نوجوان کو کہا کہ آپ نے مجھے دوست کہا تھا۔ آئندہ یہاں پر مت آنا یونیورسٹی کے بعد سیدھا اپنے ہاسٹل میں جا پڑھو تعلیم حاصل کروں اس سے کچھ نہیں ہوتا اگر آپ خودکشی بھی کروگے ، تعلیم چھوڑوں گے یا یہاں آکے اپنا وقت ضائع کروگے تو کسی تو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گا۔دوسرا شرط اس نوجوان کا یہ تھا کہ جب بھی آپ میری کہانی پر تحریر لکھوں تو”یہ عنوان دو وہ آنکھیں۔۔۔”

پی ایس ایل 8 کا افتتاحی میچ، لاہور قلندرز نے ملتان سلطانز کو پچھاڑ دیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button