کھوج بلاگ

نامکمل ایجنڈے کی تکمیل

تحریر: ایم سرور صدیقی
گذشتہ سے پیوستہ سال ا س لحاظ سے تاریخی تھا کہ حکومت ِ پاکستان نے وطن ِ عزیز پاکستان کا جو پہلا سیاسی و آفیشل نقشہ جاری کیا جس میں پورا جموں وکشمیر،سیاہ چن،گلگت بلتستان،لداخ ،ریاست جونا گڑھ اور مناوادر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اوپر کی لکیر سبز اور اس کے نیچے اورنج، سرخ، گلابی اور نیلے رنگ میں لکیر کو بین الا قوامی سرحد ظاہر کر کے پاکستان کا حصہ ظاہر کیا گیا۔ سبز رنگ کی لکیر جس میں ہلکے معمولی کالے رنگ کے نشانات ہیں صوبائی تقسیم کو ظاہر کرتی ہے۔ گلابی رنگ کی لکیر بائنڈری ورکنگ ظاہر کرتی ہے اس میں بھی گہرے کالے رنگ کے نشان ہیں۔ سرخ رنگ کے ڈاٹ پر مشتمل لائن آف کنٹرول ہے جب کہ نیلے رنگ کی لکیر دریائوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ نقشے میں بھارت کے غیر قانونی قبضے والے جموں و کشمیر کے ساتھ سرحد کو واضح نہیں کیا گیا اسے کھلا رکھا گیا ہے۔ اس علاقے کے ساتھ سرحد نہیں دکھائی گئی۔ یہ نقشہ دراصل تکمیل ِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے ۔

فلیٹ کی بالکونی اور نیم عریاں نوجوان لڑکی

حقیقت حال بھی یہی ہے کہ قیام ِ پاکستان سے قبل ہونے والے عام انتخابات میں یہ اصولی فیصلہ کیا گیا تھاکہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے لیکن جب حضرت قائد ِ اعظم نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنرجنرل بنانے سے انکارکردیا تواس نے غصے میں آکر گورداسپور کو پاکستان میں شامل نہ کیاجس کے نتیجہ میں کشمیرکی پوری وادی ہندوستان کے تسلط میں آگئی یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ء کے انتخابات کے نتیجہ میں میں چھوٹی بڑی کئی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں اس کے تحت 15 اگست کو نواب مہابت خان جی سوم کو خط لکھا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں تو اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس اعلان پر بھارت کی حکومت نے شدید احتجاج کیا۔ ہندو راجہ نے بڑا احتجاج کیا 17 ستمبر کو اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹس وی پی میمن نے جونا گڑھ کا دورہ کیا تاکہ نواب مہابت خان جی کو بھارتی حکومت کا پیغام دیا جا سکے۔ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ واپس لے لے مگر ملاقات نہ ہو سکی اور بہت غصے میں واپس آ گیا۔ صدر ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جونا گڑھ کی عبوری حکومت قائم کرنیکا اعلان کر دیا۔ 25 ستمبر 1947ء کو باقاعدہ قیام کا اعلان کر دیا اور اردگرد کی ریاستوں کی فوج کو جونا گڑھ کا محاصرہ کئے رکھنے کی ہدایت کی 9 نومبر 1947ء کو باقاعدہ جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا اور 2 سال بعد فروری 1949ء میں رائے شماری کرائی جس میں 2 لاکھ 1457 میں سے ایک لاکھ 90 ہزار 870 افراد نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ سنا دیا۔جونا گڑھ شہر میں 18 ویں صدی میں نوابوں کی جانب سے چٹا خانے چوک میں مقبرہ مہابت خان تعمیر کروایا گیا۔یہ مقبرہ فن تعمیر کے حوالے سے انڈواسلامک گوتھک اور یورپی سٹائل کا مجموعہ ہے۔ اس کے مینار اور گنبد نوعیت کے اعتار سے خالصتاً اسلامی تشخص رکھتے ہیں جبکہ یہاں تراشے ہوئے بت وغیرہ اور ستون سٹائل میں گوتھک ہیں۔

مقبرہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سیڑھیاں میناروں کے باہر سے اوپر کو جاتی ہیں۔ تقسیم کے وقت یعنی 1947ء میں نواب مہابت علی خان سوم نے جونا گڑھ میں پاکستان کی کوئی مشترکہ سرحد نہ ہونے کے باوجود پاکستان کیساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بھارتی حکومت کے دباؤ میں پاکستان چلے آئے اورآخر جونا گڑھ اپنی آزادی کے صرف 3 ماہ بعد بھارت کے ساتھ مل گیا حالانکہ پورا جموں وکشمیر،سیاہ چن،گلگت بلتستان،لداخ ،ریاست جونا گڑھ اور مناوادر مسلم اکثریت آبادی والے علاقے تھے جن کاالحاق پاکستان کے ساتھ یقینی تھالیکن مسلمانوںکے ساتھ ازلی دشمنی کے باعث ہندو،عیسائی گٹھ جوڑ نے پاکستان کی تکمیل کے نامکمل ایجنڈے نے برصغیرکومسائل میں دھکیل دیا آج بھارت میں درجنوں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیںتامل ،سکھ اورمسلمان اس میں پیش پیش ہیںایک اور بات دنیا میں ریاستی جبر،دھونس ،دھاندلی اور ظلم سے کسی کو زیادہ دیر تک محکوم نہیں رکھا جا سکتا حالانکہ بھارت اپنی تاریخ کے داخلی اور خارجی مسائل میں اس قدر الجھاہواہے کہ حالات بے قابو ہو رہے ہیں جس کو دبانے کے لئے بلادریغ ریاستی جبر سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ فطری بات ہے جس چیز کو جتنا دبایا جائے وہ اتنی ہی تیزی سے ابھر تی ہے ۔اس وقت بھارت میں درجنوں حریت پسند اپنے آزاد وطن کی جدوجہد کررہے ہیں جن میں تامل اور سکھ پیش پیش ہیں خالصتان کے قیام کیلئے سکھ کمیونٹی نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اندراگاندھی کا قتل بھی اسی تناظرمیں ہوا جبکہ ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی کو تامل ناڈو میں علیحدگی پسندوںنے ایک بم دھماکے میں موت کے گھاٹ اتاردیا مسلمانوںکو دبانے اور خوف وہراس پھیلانے کیلئے دہلی، بھارتی گجرات،ممبئی میں آئے روز مسلم کش فسادات اسی لئے کروائے جاتے ہیں اس وقت بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیںجونا گڑھ اور مناوادر ،میسور،گجرات سمیت درجنوں ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاںکے لوگ آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر بھارتی حکمران کیا کریں گے ۔ ابھی تو مقبوضہ کشمیر میں رائے حق دہی کی بات ہورہی ہے مودی سرکارنے لاکھوںکشمیریوںکو ان کے حق سے محروم کرکے بر ِصغیرپاک و ہندکے ایک ارب انسانوں کا مستقبل دائوپر لگا دیاہے حالانکہ بر ِصغیرکے لوگ امن چاہتے ہیں کیونکہ امن میں ہی ہم سب کی بقائ، عافیت اور سلامتی ہے کاش!بھارتی حکمران دل کی آنکھیں کھول کرغور کریں تو محسوس ہوگا امن سب سے بڑی نعمت ہے یہ بات وہجتنی جلدی سمجھ لیں ان کے حق میں اتنا ہی بہترہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button