انٹرنیشنل

فیک پورنو گرافی یا جنسی تصاویر، کون کون سی سیاسی خواتین شکار بنیں؟ چونکا دینے والی رپورٹ سامنے آگئی

امریکن سن لائٹ پراجیکٹ نے ڈیپ فیک مواد کے 35 ہزار سے زائد واقعات کی نشاندہی کی ' برطانیہ میں 30سے زائد برطانوی خواتین، پاکستانی سیاسی خواتین بھی شامل ہے

امریکہ (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا بھر میں پھیلی فیک پورنو گرافی یا جنسی تصاویر کی کون کون سی سیاسی خواتین شکار بنیں؟ اس حوالے سے چونکا دینے والی رپورٹ نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ بنا رضامندی کے تیار کردہ ڈیپ فیکس میں آن لائن اضافہ عالمی سطح پر اس ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنے کی کوششوں کی نسبت کہیں تیز رفتار ہے۔ اس کی ایک وجہ مصنوعی ذہانت کی حامل ایسی سستی ایپس کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہے، جو کسی بھی خاتون کی تصویر کو بے لباس کر کے دکھا سکتی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان تصاویر کو اکثر عوامی سطح پر کوشاں خواتین کی ساکھ کو خراب کرنے، ان کے کیریئر کو خطرے میں ڈالنے اور عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح بلیک میلنگ یا ہراسانی جیسے حالات پیدا کر کے قومی سلامتی کو بھی خطرے سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ میں غلط معلومات پر تحقیق کرنے والے گروپ امریکن سن لائٹ پراجیکٹ نے ڈیپ فیک مواد کے 35 ہزار سے زائد واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ مختلف فحش ویب سائٹس پر موجود یہ مواد کانگریس کے 26 ارکان کے بارے میں ہے، جن میں سے 25 خواتین ہیں۔ گروپ کی جانب سے گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ کانگریس میں ہر چھ میں سے ایک خاتون مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ اس طرح کی تصاویر کا شکار ہوئی ہے۔ اے ایس پی کی چیف ایگزیکٹیو نینا جانکووچ کا کہنا ہے، ”خواتین قانون سازوں کو خطرناک رفتار سے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ڈیپ فیک پورنوگرافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اے ایس پی نے تصاویر میں دکھائی گئی خواتین قانون سازوں کے نام جاری نہیں کیے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس نے نجی طور پر ان کے دفاتر کو مطلع کیا ہے۔

برطانیہ میں نائب وزیر اعظم انجیلا رینر ان 30 سے زائد برطانوی خواتین سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہیں ڈیپ فیک پورن ویب سائٹ نے نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک درجن کے قریب سیاست دانوں کی تصاویر کو ان کی رضامندی کے بغیر برہنہ تصاویر میں تبدیل کیا۔ اٹلی میں وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ان کی ڈیپ فیک فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں امریکی فحش ویب سائٹس پر پوسٹ کرنے کے الزام میں دو افراد پر ایک لاکھ یورو ہرجانے کا دعوی دائر کر رکھا ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا نے حقائق کی چھان بین کرنے والے ماہرین نے پاکستان میں ایک ڈیپ فیک ویڈیو کو جعلی قرار دیا، جس میں ایک خاتون قانون ساز مینا مجید کو ایک غیر متعلقہ مرد وزیر کو سرعام گلے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک اور واقعے میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا کہ جب انہیں آن لائن ایک ڈیپ فیک ویڈیو ملی، جس میں ان کا چہرہ ایک بھارتی اداکارہ کے برہنہ جسم پر لگایا گیا تھا تو یہ چیز ان کے لیے شدید تکلیف کا باعث بنی۔

ٹیک پالیسی پریس نامی غیر منافع بخش ادارے نے گزشتہ سال متنبہ کیا تھا کہ ”سیاست میں خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر اور ویڈیوز کا خوفناک اثر ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ پاکستان میں جنسی ڈیپ فیک سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کا فقدان ہے۔ برطانیہ کے قوانین ڈیپ فیک پورن کو شیئر کرنے کو جرم قرار دیتے ہیں اور حکومت نے رواں سال اس کی تیاری پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اب تک کوئی حتمی ٹائم ٹیبل طے نہیں کیا گیا ہے۔

کیلیفورنیا اور فلوریڈا سمیت مٹھی بھر امریکی ریاستوں نے جنسی طور پر واضح ڈیپ فیکس کو قابل سزا جرم قرار دینے والے قوانین منظور کیے ہیں اور اس کے خلاف مہم چلانے والے کانگریس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کی تخلیق اور پھیلا کو روکنے کے لیے فوری طور پر متعدد بل منظور کرے۔ اگرچہ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ جیسی مشہور شخصیات اور ہائی پروفائل سیاست دان ڈیپ فیک پورن کا شکار رہی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کی نظروں میں نہ آنے والی خواتین بھی اتنی ہی اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ اے ایس پی کی جانب سے امریکی کانگریس کی خواتین سیاستدانوں کو مطلع کیے جانے کے بعد مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ جعلی تصاویر کو ویب سائٹس سے تقریبا مکمل طور پر ہٹا دیا گیا۔ تاہم اے ایس پی کا کہنا ہے، ”جن خواتین کے پاس کانگریس کے ارکان کو فراہم کردہ وسائل کی کمی ہے، اگر وہ خود ان ویب سائٹس سے مواد ہٹانے کی درخواست شروع کر دیں تو ڈیپ فیک پورنوگرافی سائٹس کی جانب سے اتنی تیزی سے ردعمل حاصل کرنے کا امکان نہیں ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button