نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کی سزا برقرار، صدر ہونے کی وجہ سے استثنا ء حاصل
امریکہ کی عدالت نے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "ہش منی" کیس میں سزا سناتے ہوئے ان پر کوئی تعزیر عائد نہیں کی ہے اور انہیں غیر مشروط طور پر ڈسچارج کردیا ہے

امریکہ(مانیٹرنگ ڈیسک)ہش منی کیس میں نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کو کیس کی سز ا سناتے ہو ئے کوئی تعزیز عائد نہیں کی۔ جج کا فیصلہ ان کے جرم کے ارتکاب کو برقرار رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں آزادانہ طور پر جیل کی سزا یا جرمانے کے خطرے کے بغیر وائٹ ہاؤس میں اپنا دور حکومت شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایک پورن اسٹار کیساتھ ماضی کے تعلق پر اسے پیسوں کے عوظ خاموش رکھنے کے اس غیر معمولی مقدمے میں سابق اور آنے والے صدر پر 34 مجرمانہ الزامات لگائے گئے تھے۔تاہم، اس مقدمے کی قانوی پیچیدگیوں اور کیس کی تفصیلات سے امریکی ووٹرز کی نظر میں ٹرمپ کے بارے میں تاثر پر کوئی اثر نہیں پڑا اور عوام نے ٹرمپ کو چار سال کے وقفے کے بعد پچھلے سال نومبر کے الیکشن میں دوسرے دورِ صدارت کے لیے منتخب کر لیا۔
اے پی کے مطابق اس مقدمے میں چار سال کی سزا ہو سکتی تھی جس کا اختیار نیویارک ریاست میں مین ہیٹن کے جج وان ایم مرچن کے پاس تھا مگراس کی بجائے جج نے ایک ایسی سزا دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت آئینی مسائل سے بچتے ہو ئے اس مقدمے کو ختم کر دیا گیا۔تاہم نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہوجانے کے بعد یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ آیا کوئی عدالت نومنتخب صدر کو سزا سنا سکتی ہے یا نہیں۔
جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے جج وان مرچن نے کہا کہ اس سے قبل ان کی عدالت میں اتنا منفرد اور مختلف حالات والا مقدمہ پیش نہیں ہوا۔ تاہم ان کے بقول ایک جج کو مقدمے کے حقائق کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔جج نے کہا کہ غیر معمولی حالات کے باوجود یہ مقدمہ ان کی عدالت میں چلنے والے دوسرے مقدمات ہی کی طرح تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے صدر کو حاصل قانونی تحفظ اس عہدے کا استحقاق ہے، اس پر براجمان شخصیت کا نہیں۔جج مرچن نے کہا کہ، جیسے کسی دوسرے مدعا علیہ کے معاملے میں ہوتا ہے، سزا دینے سے پہلے متعدد عوامل پر غور کیا جاتا ہے۔ لیکن، انہوں نے اس کیس کے حوالے سے کہا کہ صدر کے طور پر ٹرمپ کو جو قانونی تحفظ حاصل ہوگا وہ ایک ایسا عنصر ہے "جو باقی سب پرحاوی ہے۔”