پاکستان

سلم صافی نے(ن) لیگ،پیپلزپارٹی،پی ٹی آئی اورمولانا کی”واٹ” لگادی

عمران خان نے دو قدم آگے بڑھ کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ سپورٹ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل بھی کیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے اپنے ایک کالم میں سلم صافی نے(ن) لیگ،پیپلزپارٹی،پی ٹی آئی اورمولانا کی”واٹ لگادی انھوں نے اپنے ایک کالم میں لکا کہ عمران خان نےاقتدارسنبھالا تو یہ ورد کرتے رہے کہ ملک معاشی طورپران کی توقع سے زیادہ تباہ ہے۔شہبازشریف کی قیادت میں زرداری، مولانا، خالد مقبول، اختر مینگل اور دیگر نے مل کر حکومت سنبھالی تو یہی دہائی دیتے رہے کہ ملک کو پی ٹی آئی نے جس طرح تباہ کررکھا ہے، وہ ان کے خدشات سے کئی گنا بڑھ کر ہے ۔ وہ کہتے رہے کہ انہوں نے ریاست کی خاطر اپنی سیاست کی قربانی دی۔لیکن اب نگران آگئے ہیں تو وہ بھی یہی فریاد کررہے ہیں کہ معیشت ہی نہیں بلکہ آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے اور سمجھ نہیں آرہی کہ اصلاح کا آغاز کریں تو کہاں سے کریں۔ جرنیلوں اور سیاستدانوں کا تو ذکر ہوتا ہے لیکن اس ملک کو ناقابل اصلاح بنانے میں بڑا کردار بیوروکریسی، عدلیہ اور مافیاز کا ہے جن کا ذکر نہیں ہورہا تاہم یہاں پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان سب کو کس نے خراب کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ان سیاسی رہنماوں نے ۔

یہ لوگ ہوشیار ہیں اور بدرجہ اتم ہوشیار ہیں لیکن افسوس کہ ملک کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنا جو ”سسٹم“ بنا رکھا ہے یہ کیا معمولی اذہان کا کام ہے؟ ”سسٹم“ بنانے کی بجائے اگر وہ یہ صلاحیت اور قابلیت سندھ کے عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرتے تو کیا آج سندھ جنت نہ ہوتا؟۔ جو بڑے سیدھے سادے اور پاک بنے پھرتے تھے، وہ عمران خان کتنے چالاک نکلے۔ کتنی لابیوں سے ملے ہوئے تھے۔ کس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے ۔ کس طرح جھوٹے بیانئے گھڑتے اور لوگوں کے اذہان میں بٹھاتے رہے ۔کس طرح اپنے ایک ایک محسن کو لتاڑا اور کس طرح ایک ایک مافیا کو نوازا ۔ مغربی طاقتوں کی اس طرح خدمت کی کہ اپنے عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو ان کا مخالف بناکے رکھا۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو دیکھ لیجئے۔ ڈیڑھ سال حکومت کی ۔ اپنے کیسز ختم کرائے۔ حکومت سے رخصت ہوتے ہوئے بھی بیوروکریسی کو قابو میں رکھنے کیلئے نگران سیٹ اپ اور بیورکریسی میں اپنے بندے چھوڑے کہ وہ بعد میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں۔ محترم مولانا صاحب کو دیکھ لیجئے ۔ مرکز میں اپنے لئے استحقاق سے زیادہ لیا۔ خیبر پختونخوا پر نگران کے نام پر سوا سال حکومت کی اور حقیقت یہ ہے کہ سوا سال میں پانچ سال کا کام نکال ڈالا۔ باہر بڑے انقلابی اور جمہوریت پسند بنے پھرتے ہیں لیکن اندر سے گزشتہ چار سال (مسلم لیگ، پی پی پی ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی) کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا بننے کا مقابلہ جاری رہا۔

عمران خان نے دو قدم آگے بڑھ کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ سپورٹ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل بھی کیا لیکن ہدف سویلین بالادستی نہیں بلکہ یہی تھا کہ مجھے ماضی کی طرح دوبارہ گود لے کر اقتدار دلوادے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جے یوآئی کے درمیان بھی یہ میچ زوروںپر رہا کہ کون زیادہ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے ۔ بظاہرانقلابی نظرآنے والے قوم پرست بھی کچھ کم نہیں لیکن درپردہ ان کا کردار باپ پارٹی جیسا ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے چینل سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہ کر چہیتا بننے کی کوشش کرتا ہے تاہم عوام کے سامنے یا میڈیا میں ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے سویلین بالادستی کے اصل چیمپئن وہ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button