پاکستان

پیمرا ترامیم میں تبدیلی کا بل ، حامد میر اور عامر متین کے خلاف نعرے بازی

حامد میر اور عامر متین اپنے اداروں کے مالکان کے مفادات کے پیش نظر لابنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں: صحافی رہنمائوں کا الزام

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پیمرا ترامیم میں تبدیلی بل 2023ء ورکنگ جرنلسٹس منظور ہوتے ہی سینئر صحافی حامد اور عامر متین کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے باہر اور پی ایف یو جے کے دفاتر سمیت مختلف صحافتی تنظیموں کی جانب سے حامد میر اور عامر متین کے خلاف نعرے بازی کی گئی بتایا جاتا ہے کہ حامد میر اور عامر متین سینیٹ اور قومی اسمبلی میں منظور کیے گئے ترامیمی بل کی مخالفت کر رہے تھے بعض صحافی رہنمائوں نے الزام عائدکیا ہے کہ حامد میر اور عامر متین اپنے اداروں کے مالکان کے مفادات کے پیش نظر لابنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیںاور انہیں گراس روٹ لیول پر کام کرنے والے ورکنگ جرنلسٹوں کو حقوق دلوانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

واضح رہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی نے پیمرا ترمیمی بل 2023 ورکنگ جرنلسٹس متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیمرا ترمیمی بل 2023 ورکنگ جرنلسٹس سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بل پر صحافیوں کے ایک گروپ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ باقی صحافی تنظیموں نے اس بل کی حمایت کی ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ گزشتہ روز 40 کے قریب صحافیوں کے وفد نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے، وفد نے اس بل کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ یہ بل صحافیوں کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ پیمرا ترمیمی بل 2023 ورکنگ جرنلسٹس صحیح معنوں میں ایک فلاحی بل ہے جس میں صحافیوں کے لیے واجبات سمیت بہت سے اچھے فیچرز موجود ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیمرا ترمیمی بل 2023 ورکنگ جرنلسٹ میں کچھ نئی تجاویز شامل کرنے کی سفارش کی۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کا عمل 2002 میں شروع ہوا، اس وقت پرویز مشرف کی حکومت تھی جب نجی ٹی چینلز وجود میں آئے اور اس آرڈیننس کی بہت سی ایسی شقیں تھیں جن میں تبدیلی بہت ضروری تھی۔

مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ میں نے اپریل 2022 میں ایمینڈ، سی پی این ای، پی بی اے، اے پی این ایس اور میڈیا کے نمائندوں کی تنظیم پی ایف یو جے کے ساتھ مل کر اس ترمیمی عمل کو شروع کیا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے بہت سی میٹنگز کی گئیں، جیسے مِس انفارمیشن کی تعریف کو دوبارہ اس بل میں لایا گیا، کیونکہ اس وقت چیئرمین پیمرا کسی بھی نیوز چینل کا پروگرام روک سکتا ہے، چینل کا لائسنس معطل کر سکتا ہے اور چلتے پروگرام کو بھی بند کر سکتا اور چیئرمین پیمرا کے اس یکطرفہ اختیار کو شکایات کونسل کے حوالے کیا گیا ہے، اس بل میں پیمرا کے فیصلے کے خلاف پیمرا شکایت کونسل میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

مریم اورنگزیب کے مطابق پیمرا آرڈیننس 2002 میں ایک اور ترمیم کی گئی جس کے تحت الیکٹرانک میڈیا ورکرز تنخواہیں نہ ملنے پر اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں جبکہ ماضی میں کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہیں تھا۔ نئے بل کے مطابق اگر کوئی میڈیا کا ادارہ 2 ماہ سے زیادہ اپنے ورکرز کی تنخواہ روکے گا تو حکومت اس کو اشتہار نہیں دے گی، اگر کوئی ادارہ مقرر کردہ کم سے کم اجرت اپنے ورکرز کو نہیں دے گا تو اس کا لائسنس منسوخ اور ایک کروڑ جرمانہ کیا جائے گا۔ مِس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ 12 ممالک اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے مِس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف کی ہے اس سے رہنمائی لی گئی ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ پہلے تو اس مسئلے کو انا کا مسئلہ بنا دیا گیا تھا، 3 دن تک اس کو میری ذات کا مسئلہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ کسی کو خوش کرنے کے لیے یہ قانون لایا جا رہا ہے۔ ہم نے آزادی اظہار رائے کی جنگ سڑکوں پر لڑی ہے، عرفان صدیقی صرف ایک کالم لکھنے پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے، بعد میں کسی کو اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ عرفان صدیقی کو جیل کے فرنٹ دروازے سے رہا کریں اور ان کو جیل کے پچھلے دروازے سے باہر نکال کر پیٹرول پمپ پر چھوڑا گیا جہاں سے میں نے انہیں ریسیو کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button