پاکستان

اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد، پیر کو بڑے فیصلے کا امکان

ججز کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں، دو ججوں نے سماعت سے معذرت کی، باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی،چیف جسٹس

اسلام آباد(کھوج نیو، آن لائن)چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب /خیبر پختونخواہ میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کے موقع پرریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کے سامنے معاملہ8اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہو رہی ہے اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے،ایک جج کو آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔سماعت عدالت عظمی نے اس موقع پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد جبکہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت سوموار تین اپریل تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔جمعہ کو کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی مین تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت پاکستان بار کونسل کے چیرمین ایگزیکٹو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے، حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، ججز کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کل اور آج دو ججوں نے سماعت سے معذرت کی، باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ نکات پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا لیکن عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں، کچھ دوسرے ججز پر تنقید کر رہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔چیف جسٹس نے حسن رضا پاشا سے کہا کہ اس معاملے پر مجھے چیمبر میں ملیں، آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کردیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی، عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا،اٹارنی جنرل ن بتایا کہ قت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ، عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے۔انہوں نے کہا کہ ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آ گئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آ سکے، آئین جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، ایوان کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے۔انہوں نے کہا کہ 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے، صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔عدالت کے سامنے معاملہ8اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہو رہی ہے اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کر ا?پ کولگیگا کہ بااختیار فیصلہ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ہر فریق کے ہر نکتے کا فیصلے میں ذکر کریں گے، 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے ، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یا حساس ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی ہے، دہشت گردی تو 90 کی دہائی سے ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیدگی اختیار کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ 2 ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر ا?پ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ا?پ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہئے، درجہ حرارت کم کرنے والے آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں، فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جسٹس مظاہر نقوی کو کیوں شامل کیا گیا، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا۔انہوں نے کہا کہ 2 سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا، سیاسی معاملہ چل رہا ہے، جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا، چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اقبال حمید الرحمٰن کو استعفی دینے سے روکا تھا، جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا، چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنے دلائل جلدی ختم کردوں گا۔وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف پورا نہیں سنا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنیدیں۔وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں، روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ا?پ کو سنیں گے آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصراً بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں، ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے الیکشن کے لیے سیکیورٹی اور پیسے دینے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں فنانس کے حوالے سے معلومات دینا چاہتا ہوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو معلومات نہیں قانون کے تحت عدالت کی معاونت کرنی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیں گے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بات 20 ارب روپے کی ادائیگی کی نہیں ہے، حکومت کو 1500 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، شرح سود 13 سے بڑھ گئی ہے، شرح سود بڑھنے سے حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا 20 ارب کی ادائیگی سے حکومت دیوالیہ ہو جائے گی؟چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب سیکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں، جس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے بتایا کہ پہلے سیاسی جماعتوں کو سن لیں، بعد میں دلائل دوں گا، معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 8اکتوبر تک انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، اس پر جواب دیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک، اکرم شیخ اور کامران مرتضیٰ کو بھی سنیں گے، پہلے ریاست پاکستان کو سننا چاہتے ہیں۔ملک کو 1500 ارب خسارے کا سامنا ہے، اٹارنی جنرلاٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ معاملہ 20 ارب روپے کا نہیں پوری معیشت کا ہے، ملک کو 1500 ارب خسارے کا سامنا ہے، 30 جون تک شرح سود 22 فیصد تک جا سکتی ہے، شرح سود بڑھنے سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ماضی کے قرضوں پر بھی نئی شرح سود لاگو ہوتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی کو کاٹنا نہیں چاہیے۔20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، جسٹس منیب اخترجسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500 ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہو گا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل منیجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لیں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30 اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز میں رقم ہونا اور خرچ کے لیے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں، اسٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کردی، ?اٹارنی جنرل نے ملکی خزانے کی صورتحال پر دلائل دینے کے بعد فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔عدالت کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس روسٹر بنانے کا ماسٹر ہوتا ہے یہ معاملہ اس پر چھوڑ دیں۔سپریم کورٹ نے سماعت پیر صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی اور سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو ا?ئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔

ورلڈ کپ 2023ئ، نجم سیٹھی کا قومی ٹیم بھارت بھیجنے سے صاف انکار

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button