پاکستان

لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ، ڈاکٹر فاروق ستار کا بیان، پیپلز پارٹی میں ہلچل

حالیہ مردم شماری میں لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جائے،مردم شماری میں 16 ہزار بلاکس بناکر کراچی کی آبادی کو کم دیکھانے کا میچ فکس کردیا گیا ہے

کراچی(کھوج نیوز، این این آئی) مردم شماری کا انعقاد ہر دس سال بعد ہوتا ہے گزشتہ مردم شماری 17 سال بعد ہوئی تھی لیکن موجودہ مردم شماری ایم کیو ایم پاکستان کی کاوشوں سے 5 سال بعد ہورہی ہے2017 میں کراچی کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی اس شہر کی آبادی کونصف سے بھی کم دکھایا گیاجس پر ہم نے فلور آف دی ہاؤس شور مچایا اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ہمارے مطالبے پر 5 فیصد سیمپل مردم شماری کا کہااسکے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے ہمارے مطالبے پر مکمل مردم شماری کا فیصلہ کیا ۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے اراکین رابطہ کمیٹی کے ہمراہ عارضی مرکز بہادرآباد پرپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انکا کہنا تھا کہ کراچی والوں سے اپیل ہے کہ وہ خود کو گنوائیں اگر کراچی کے عوام کو اپنا حق لینا ہے تو خود کو گنوانا ہوگا، مردم شماری کے پہلے مرحلے کا آغاز آج 20 فروری سے شروع ہوچکا ہے جو کہ 2مارچ تک جاری رہیگاپہلے مرحلے میں ہر شہری بذریعہ ویب پورٹل خود کو رجسٹر کرواسکتا ہے جبکہ دوسرا مرحلہ 1 مارچ سے 30 مارچ تک جاری رہیگااب تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپکو لازمی شمار کروائیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ حکومت اور مختلف ادارے کراچی کی آبادی کہیں 3 کروڑ بتاتے ہیں اور کہیں 4 کروڑ بتاتے ہیں ہمیں خدشہ ہے کہ مردم شماری کا یہ میچ بھی فکس میچ ہے میں سندھ کے تمام شہریوں خصوصا کراچی، حیدرآباد، سکھر،نواب شاہ اور میرپور خاص کے شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ شمار کنندہ جہاں جہاں جس جس گھر میں آئیں انہیں لازمی گنا جائے ہر فلیٹ، گھر، جھگی کو علیحدہ علیحدہ گنا جائے2017 کی مردم شماری میں مکمل عمارتوں کو ایک فلیٹ گنا گیا جو کہ زیادتی تھی ایک ایک عمارت میں 100سے زائد فلیٹس ہوتے ہیں تمام شہریوں کو اس حوالے سے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے نمائندوں سے تعاون کرنا ہے ہر وہ شخص جو کراچی میں رہتا ہے اور یہاں کھاتا کماتا ہے اسکو شمار کیا جائے ہم نے اس بات پر اصرار کیا کہ مردم شماری ڈی فیکٹو اصول کے مطابق مردم شماری ہونی چاہئے کیونکہ پوری دنیا میں مردم شماری ڈی فیکٹو اصول کے تحت ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ 15 سالوں شہری سندھ کے ساتھ متعصبانہ اقدامات سب کے سامنے ہے اور حالیہ مردم شماری میں شمار کنندگان کا تقرر پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے کیا ہے ہمارا ان شمار کنندگان پر کوئی اعتماد نہیں ہے ہمیں پھر سے خدشات ہیں کہ پیپلزپارٹی کی ایما پر پھر سے اندرون سندھ کی آبادی زیادہ دکھائی جائے گی ہمیں اس معاملے پر شدید تحفظات ہیں شمار کنندگان کے تقرر میں نجی اداروں، اسکولوں، کالجوں کے ملازموں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کراچی کے 16 ہزار بلاک بنائے گئے ہیں ان بلاکس کے حساب سے کیلکولیشن کریں تویہ فکس میچ معلوم ہوتا ہے اس بات کا ثبوت ڈیجیٹل مردم شماری کے پہلے ہی روز ویب سائٹ کا ڈان ہونا ہے جس کے باعث مرکز بہادرآباد پر عوام کے شکایتوں کے لئے فون کال آرہے ہیں لگتاہے کراچی کہ آبادی 1 کروڑ 80 لاکھ سے 2 کروڑ تک دکھانے کی پلاننگ کی گئی ہے کراچی میں درست حلقہ بندیوں کے تناسب سے قومی اسمبلی کی 21 کے بجائے 42 نشستیں اورصوبائی اسمبلی کی 100 نشستیں ہونی چاہئے ہیں اسی طرح حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور میرپورخاص کی بھی نشستیں بڑھنی چاہئے۔

نئی آئل ریفائنری کا قیام، سعودی عرب کے کردار نے تھرتھرلی مچا دی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button