پاکستان

اہل صحافت نےعمران خان کو قائداعظم کےمقابلےمیں کیوں لا کھڑا کیا؟

ی یہ بھی ضرور لکھے گا کہ یہی وہ سال تھا جب شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی حکومت الیکشن سے بھاگ گئی اور کچھ اہل صحافت اس فرار کو قومی تقاضا قرار دیتے رہے۔

اسلام آباد(کھوج نیوز) اہل صحافت بھی مگر اندھی محبت اور اندھی نفرت کا شکار ہیں۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت کے شکار اہل صحافت عمران خان کو قائد اعظم کے مقابلے پر لا کر صرف اپنے فالوورز کی تعداد اور ریٹنگ میں اضافہ چاہتے ہیں اور یہ وہ مفاد پرستی ہے جس کی کوکھ سے مورخین کی خرافات جنم لیتی ہیں۔ 2047 میں جب قیام پاکستان کے سو سال مکمل ہوں گے تو کوئی نہ کوئی مورخ یہ ذکر ضرور کرے گا کہ 2023 میں فلاں شخص نے عمران خان کو قائد اعظم سے زیادہ مقبول لیڈر قرار دیا۔ کوئی نہ کوئی یہ بھی ضرور لکھے گا کہ یہی وہ سال تھا جب شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی حکومت الیکشن سے بھاگ گئی اور کچھ اہل صحافت اس فرار کو قومی تقاضا قرار دیتے رہے۔ یہ تمام اذکار مورخین کی خرافات میں شمار ہوں گے اور ان خرافات میں کئی جج صاحبان کے وہ فیصلے بھی شامل ہوں گے جن کو کبھی سنہرا رنگ میسر نہیں آئے گا۔

عوام کی مہنگائی سےلڑائی،سیاستدانوں کی قتدار کے لئےرسہ کشی ،مستقبل پر سوالیہ نشان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button