پاکستان

ضداورانا کے چنگل میں پھنسےسیاستدان اورجج تاریخ سےسبق سیکھنے کے لئےتیارنہیں ججزاورسیاستدان

ان کے ساتھی جج اے آر کارنیلئس نے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو مسترد کردیا اور اختلافی نوٹ لکھا


اسلام آباد(کھوج نیوز)اپنی اپنی انا کے اسیر سیاست دان اور جج تاریخ سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں۔سیاست دانوں کی نااہلی کے باعث جب جب سیاسی تنازعات ججوں کے سپرد ہوئے تو انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کو انصاف کا نام دیکر تنازعات سلجھانے کی بجائے مزید الجھائے اور فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کیا۔1954میں کیا ہوا؟گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو توڑ دیا تو معاملہ اعلی عدالت میں پہنچا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے فوری طور پر نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے ڈالا۔ان کے ساتھی جج اے آر کارنیلئس نے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو مسترد کردیا اور اختلافی نوٹ لکھا۔

جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت نے جنرل ایوب خان کو مارشل لا کا راستہ دکھایا اور موصوف نے 1958میں پاکستان کا پہلا آئین پامال کرکے مارشل لانافذ کردیا اور دو سو کیس میں جسٹس منیر نے ایک دفعہ پھر نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر مارشل لا کو بھی جائز قرار دے دیا۔جسٹس اے آر کارنیلئس نے ایک اور اختلافی نوٹ لکھا اور کہا کہ مارشل لا بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل نہیں کر سکتا۔

ماضی میں بھی ہرحکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سےکیوں اورکب ناراض رہی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button