پاکستان

کتنی دیرانتشاراورافراتفری کےراستے پر ہم چلتےرہیں گے؟صحافی ایازامیربھی چپ نا رہ سکے

تجزیہ کار ایاز امیر نے مقامی روزنامہ میں لکھے گئے اپنے بلاگ میں کہا ہے کہ جس جماعت کے پیچھے خیبرپختونخوا اورپنجاب کے عوام کھڑے ہیں سب کو معلوم ہے‘ عوامی ٹیسٹ کا کوئی بھی امتحان ہو وہی جماعت سرخروہوگی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) صحافی اور تجزیہ کار ایاز امیر نے مقامی روزنامہ میں لکھے گئے اپنے بلاگ میں کہا ہے کہ جس جماعت کے پیچھے خیبرپختونخوا اورپنجاب کے عوام کھڑے ہیں سب کو معلوم ہے‘ عوامی ٹیسٹ کا کوئی بھی امتحان ہو وہی جماعت سرخروہوگی۔ لیکن وہ جماعت اپنی مرضی کے انتخابات نہیں کراسکتی اور نہ ہی یہاں بنگلہ دیش کرسکتی ہے۔ اُس کیلئے وہ حالات ہی نہیں‘ بے چینی ہوگی لیکن یہاں ٹمپریچربنگلہ دیش والا ابھی تک پیدانہیں ہوا۔ اس کے برعکس بھی صورتحال اسی قسم کی ہے۔ پی ٹی آئی کو دبایاتوہوا ہے‘ پکڑدھکڑ ہوئی ہے اورجاری بھی ہے‘ لیکن اُس جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ لاکھ کوششیں کی گئی ہیں لیکن یہ مطمح نظرپورا نہیں ہوا۔ جس کا مطلب ہے کہ قومی صورتحال ایک سٹیلمیٹ (Stalemate) کاشکار ہے۔سیاسی حالات منجمد ہیں اورحکمرانی یا جسے انگریزی میں گورننس کہتے ہیں‘اُس کا ستیاناس ہوکررہ گیا ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ دیگچی کو ڈھانپ کردبادیا جائے اور اندر ہنڈیا میں چیزیں پکتی رہیں۔منہ سے تھالی ہٹے بھاپ توپھر نکلے گی اور کئی د فعہ بھاپ نکلنے سے نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال نارمل نہیں‘ منجمد کا مطلب چیزیں رُکی ہوئی ہیں۔ملک کا پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے اور ہرگزرتے دن بڑھتا جارہا ہے۔ سمجھنے کی کچھ ضرورت ہے‘ کہ نہ سرکش جماعت نے بدلنا ہے نہ دائرۂ طاقت کی سوچ میں تبدیلی کاکوئی امکان ہے۔ نہ خوئے بغاوت میں کمی نہ سوئے دار میں تبدیلی۔ رگڑے میں قوم ہے اور قوم رگڑی جا رہی ہے۔
گوپنجاب بنگلہ دیش کی طر ف نہیں جارہا لیکن مجموعی طورپر ملک میں کچھ اورہورہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صورتحال خطرے کی طرف جا نہیں رہی‘ جاچکی ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ قومی سوچ کا مرکز ان دوصوبوں کی صورتحال ہو لیکن چونکہ مختلف محاذ کھلے ہوئے ہیں‘ قومی سوچ انتشار کاشکار ہوگئی ہے۔جو توجہ طویل مغربی سرحدپر ہونی چاہیے وہ ادھراُدھر بکھری پڑی ہے۔اعلیٰ اجلاسوں میں چہروں پر ایک نظرڈالی جائے توتناؤ کے اثرات صاف نظرآتے ہیں اور یہ کوئی عجوبہ نہیں کیونکہ قومی صورتحال واقعی گمبھیر ہوچکی ہے۔ اس کاکوئی حل ہونا چاہیے‘ کتنی دیر انتشار اورافراتفری کے راستے پر ہم چلتے رہیں گے؟ یہی اسلام آباد والا جلسہ دیکھ لیجئے۔ ایک جلسہ ہی تھا‘ نارمل طریقے سے کرایاجاسکتا تھا اورایسا ہوتا توآسمانوں نے کچھ گرنا نہیں تھا۔ لیکن انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کاوہ عالم کہ لگتا تھا کوئی تاتاری فوج آ رہی ہے اور شاید دارالحکومت پر حملے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کنٹینرو ں کواتنا پکڑا اور استعمال کیا گیا کہ کروڑوں کا خرچہ اس پر آیا ہوگا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اصل خطرے کی صورتحال دومغربی صوبوں میں ہے لیکن ساری ٹینشن معتوب جماعت کے حوالے سے ہے۔
پھبتی کسنے کی بات نہیں لیکن یہ جو ظاہری طورپر حکومت میں ہیں یہ پتلے ہیں‘ ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں۔اول تو یہ کچھ کرنا نہیں چاہتے‘ وہ صلاحیت ہی نہیں‘ لیکن کرنا چاہیں بھی تونہیں کرسکتے کیونکہ طاقت کا جوتوازن ہے ہم سب اُس سے باخبرہیں۔لہٰذا اس جمود کی صورتحال کو توڑنے کی خاطر اگرکچھ کرنا ہے تویہ پہل کہیں اور سے ہوگی۔ یہ توبہت اچھا کہا گیا ہے کہ سیاسی رویوں کو دشمنی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے لیکن جیسا کہ قوم کو بخوبی علم ہے یہاں رویے ہی ایسے رہے ہیں کہ تفریق کی لائنیں بہت گہری ہوگئی ہیں۔ مل بیٹھ کر اب کسی حل کا سوچاجاناچاہیے‘ اس کی اشد ضرورت ہے۔
ایک تو بات واضح ہو گئی کہ نومئی 2023ء کے بعد جو بھی صورتحال پیدا ہوئی مطلوبہ مقاصدحاصل نہیں ہوسکے اور معتوب جماعت تابعداری کے راستوں پر چلنے کیلئے آمادہ نہیں ہوئی۔ اس مقصد کیلئے جو طورطریقے آزمائے گئے قوم کو اُن کا بخوبی علم ہے۔بہرحال ہم جب فوج میں تھے توایک جملے کواکثر سنتے کہ ناکامی کو تقویت نہیں پہنچانی چاہیے(Never reinforce failure)یعنی کسی چیز میں ناکامی ہوئی ہے توپھر ناکامی پر زورنہیں دینا چاہیے۔ معتوب جماعت کو بھی پتاچل گیا ہوگاکہ گو عوام اُس کے ساتھ ہیں‘ بنگلہ دیش والی صورتحال نہیں پیدا ہورہی۔ عوامی حمایت تو تب ہی کارگر ہو اگر کوئی اسے راستہ ملے‘ راستے ہی بند ہوں اورزورزبردستی سے کام لیا جا رہا ہو عوامی حمایت بے دلی یا غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔سنگجانی والا بہت بڑا جلسہ تھا لیکن جلسے تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں‘ عوام نے اپنی اصل رائے کا اظہار انتخابات میں بھی کردیا‘ لیکن جماعت تو مشکل حالات سے گزر رہی ہے اور لیڈربدستور سلاخوں کے پیچھے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button