حکومتی سازش یا افسران کی نااہلی ،کسانوں کی محنت پر درآمدی پالیسی کا وار
گز شتہ سال کی طر ح اس سال بھی کسان اپنی گندم مناسب قیمت پر فروخت نہیں کر پا رہے

لاہور(کھوج نیوز) 2024 میں پاکستان نے گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی، جو 31 ملین ٹن سے بھی تجاوز کر گئی۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی جو کسانوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت تھی، لیکن اس کے فورا بعد نگران حکومت کی جانب سے اچانک 2.45 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس فیصلے نے ملکی گندم کی قیمتوں کو نیچے گرا دیا اور بازار میں کسانوں کی فصل کی قدر ہی ختم ہو کر رہ گئی۔
کسان اپنی فصل لے کر منڈیوں میں پہنچے تو نہ خریدار تھا، نہ مناسب قیمت۔ نجی شعبے کو بغیر ٹیکس کے گندم درآمد کرنے کی سہولت دی گئی جس نے مقامی پیداوار کو غیر متعلقہ بنا دیا۔ گندم کا ریٹ 3900 روپے فی من مقرر تھا لیکن کھلے بازار میں یہ قیمت 2800 روپے تک گر گئی، جس سے کسانوں کو فی ایکڑ ہزاروں روپے کا نقصان ہوا۔
وفاقی اداروں کی بے احتیاطی اور کرپشن نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ ایف آئی اے نے پاسکو کے سابق ایم ڈی سمیت 7 افراد کو گرفتار کیا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے ذخیرہ اندوزوں سے ملی بھگت کر کے قومی خزانے کو 236 ملین روپے کا نقصان پہنچایا۔ وزارت خوراک کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس ساری صورتحال سے قومی خزانے کو مجموعی طور پر 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
دوسری جانب کسان اتحاد نے اس ناانصافی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ریلیاں نکالی گئیں اور سڑکیں بند کی گئیں۔ کسانوں کا مطالبہ تھا کہ درآمد بند کی جائے، کرپٹ اہلکاروں کو سزا دی جائے اور کسانوں کو ان کی محنت کا مناسب صلہ دیا جائے۔
2025 میں اس اسکینڈل کے اثرات مزید گہرے ہو گئے۔ پچھلے سال کے تجربے سے دلبرداشتہ کسانوں نے گندم کاشت کرنے سے گریز کیا، کئی علاقوں میں گندم کی بوائی میں 20 سے 25 فیصد کمی دیکھی گئی۔ زرعی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر موسم سازگار نہ رہا تو ملک میں گندم کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
کسانوں کے لیے یہ اسکینڈل صرف مالی نقصان کا نہیں بلکہ عزتِ نفس اور اعتماد کے ٹوٹنے کا بھی باعث بنا۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تباہی کے باوجود آج تک کسی بڑی شخصیت کو سزا کیوں نہیں ملی؟ وہ افسران اور وزیر کہاں ہیں جنہوں نے یہ فیصلے کیے؟ کیا یہ سب کچھ صرف ایک اتفاق تھا یا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسان کو برباد کیا گیا؟
گندم اسکینڈل نے واضح کر دیا ہے کہ اگر زرعی پالیسیوں میں شفافیت اور سنجیدگی نہ لائی گئی، تو مستقبل میں پاکستان خوراک کے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ کسان اب بھی امید لگائے بیٹھا ہے کہ شاید کبھی ریاست اس کی فریاد سنے، اور وہ دن دوبارہ آئے جب محنت کا پھل، عزت اور معاوضہ دونوںملاکرتے تھے۔