پاکستان

نوازشریف نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کیوں اپنایا؟ ایسے راز سے پردہ اٹھ گیا کہ سب دنگ رہ گئے

نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اس لئے اپنا رہے ہیں تا کہ عوام شہباز شریف کی حکومت کو بھلا کر ان کی 2013-17ء تک کی حکومت کو یاد رکھیں

لاہور(کھوج نیوز) مسلم لیگ ن کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کیوں اپنایا؟ ایسے راز سے پردہ اٹھ گیا کہ سب کے سب دنگ رہ گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا تھا کہ ان حالات میں(ن)لیگ نے اپنی ساری امیدیں نواز شریف کی واپسی سے منسلک کی ہوئی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب کی واپسی سے مسلم لیگ (ن)کا ووٹ بینک فعال ہو جائے گا۔ ایک بات تو طے ہے کہ اگر تحریک انصاف کو عمران خان کی نااہلی اور جیل میں ہونے کے باوجود انتخابات کیلئے کھلا میدان دیا جاتا ہے توبھی (ن)لیگ پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے جو نظر آ رہا ہے اس کے مطابق پی ٹی آئی کو کھلا میدان نہ بھی ملے ن لیگ کو پولیٹکلی انجینئرڈ الیکشن میں کافی محنت درکار ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف اعلان کے مطابق 21 اکتوبر کو واپس لوٹتے ہیں کہ نہیں؟ ویسے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ اب وہ واپس آ ہی جائیں گے لیکن نواز شریف کے حالیہ دو بیانوں نے شکوک پیدا کر دیئے ہیں۔

ا نصار عباسی کے مطابق نواز شریف اپنی پارٹی کی مقبولیت کے حصول کیلئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں۔ (ن)لیگی چاہتے ہیں کہ عوام شہباز شریف حکومت کا دور بھول جائیں اور بس نواز شریف کی 2013-17حکومت کو یاد رکھیں۔ نواز شریف اسی دور کی بات کرتے ہوئے جو بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں اس کے مطابق موجودہ حالات کے ذمہ دار جنرل باجوہ، جنرل فیض، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ ہیں۔ پارٹی رہنماؤں سے اپنے ایک حالیہ خطاب میں انہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن کا بھی نام لیا اور کہا سازش کرنے والے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے تمام کرداروں کو سزا دیئے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔

اس دوران میاں صاحب اور(ن)لیگ عوام سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو بھی بھول جائیں کہ اس سازش کے مرکزی کردار جنرل باجوہ کو 2019میں ایکسٹینشن دیتے وقت(ن)لیگ اور نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بہرحال یہ تو ہمیں پتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتالیکن محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اور (ن)لیگ یہ نیا بیانیہ بناتے وقت ممکنہ خطرات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔اس بیانیہ کا مطلب یہ ہو گا کہ نواز شریف انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اپنی ممکنہ حکومت کیلئے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ لڑائی کی بساط ابھی سے بچھا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہو گی جو پاکستان کی معیشت کہ بہتری کیلئے لازم ہے تاہم جس راستے پر نواز شریف چلنا چاہ رہے ہیں وہ انہیں (اگر ن لیگ واقعی حکومت بنا لیتی ہے)پہلے دن سے اداروں کے ساتھ ایک جنگ میں جھونک دیگا۔ حکومت ملنے کے بعد اگر میاں صاحب اس بیانیہ کو بھلانا بھی چاہیں گے تو میڈیا اور اپوزیشن ان کو سازش کرنے والوں کو سزا دینے کا وعدہ یاد دلاتے رہیں گے اور یوں معیشت جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہو گی وہ سیاسی عدم استحکام کا ایک بار پھر شکار ہو جائے گی۔ ہمارا ماضی غلطیوں سے بھرا ہے ،چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، عدلیہ یا سیاستدان۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں اور ماضی کی بجائے پاکستان کے حال پر توجہ دیں اور مستقبل کوسنواریں۔ ماضی میں پھنسے رہنے والے ماضی سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ ویسے بھی پاکستان موجودہ حالات میں مزید لڑائیوں اور اداروں کے درمیان جھگڑوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button