خواتین کی ڈیجیٹل دنیا میں شاندار پیش قدمی، پاکستان میں خواتین کا ڈیجیٹل دنیا میں ریکارڈ اضافہ
خواتین کے موبائل انٹرنیٹ استعمال میں تاریخی پیش رفت کی ہے، ملک میں مرد و خواتین کے درمیان موبائل انٹرنیٹ کے استعمال کا فرق 38 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد رہ گیا

اسلام آباد (ٹیکنالوجی ڈیسک )پاکستان نے 2024 میں خواتین کے موبائل انٹرنیٹ استعمال میں تاریخی پیش رفت کی ہے، جب ملک میں مرد و خواتین کے درمیان موبائل انٹرنیٹ کے استعمال کا فرق 38 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد رہ گیا۔ یہ انکشاف جی ایس ایم اے کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ "موبائل جینڈر گیپ رپورٹ 2025” میں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، اب پاکستانی خواتین مردوں کے مقابلے میں صرف 25 فیصد کم موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں، جو کہ گزشتہ برسوں کی نسبت ایک اہم بہتری ہے۔ جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر یہ فرق بدستور 32 فیصد پر برقرار ہے، جہاں اندازا 33 کروڑ خواتین تاحال موبائل انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے خواتین کے موبائل انٹرنیٹ اپنانے کے معاملے میں بھارت اور بنگلہ دیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 2024 میں پاکستان کی 45 فیصد خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال کر رہی تھیں، جبکہ بھارت میں یہ شرح 39 فیصد اور بنگلہ دیش میں محض 26 فیصد تھی۔ پاکستان میں 2023 کے مقابلے میں خواتین کے موبائل انٹرنیٹ استعمال میں 12 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جس کی بڑی وجہ دیہی خواتین کی جانب سے انٹرنیٹ اپنانا تھا۔
اسی دوران مردوں میں موبائل انٹرنیٹ استعمال میں بھی سات فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں موبائل فون رکھنے والے مردوں کے حوالے سے سرفہرست ہے، جہاں 93 فیصد مرد موبائل فون کے مالک ہیں۔ بھارت میں یہ شرح 71 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 68 فیصد ہے۔
جی ایس ایم اے نے پاکستان کی ٹیلی کام انڈسٹری اور ریگولیٹری ادارے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے)، کی کوششوں کو سراہا جنہوں نے 2020 میں ڈیجیٹل جینڈر انکلوژن اسٹریٹیجی متعارف کروائی تھی تاکہ خواتین کے لیے برابری کی بنیاد پر ڈیجیٹل رسائی ممکن بنائی جا سکے۔
رپورٹ میں جاز، ٹیلی نار اور یوفون کی بھی تعریف کی گئی جنہوں نے جی ایس ایم اے کنیکٹڈ ویمن کمیٹمنٹ انیشیٹو کے تحت اپنی خواتین صارفین کی شرح بڑھانے کی کوششیں کیں۔
ٹیلی کام انڈسٹری سے وابستہ افراد نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا۔ جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے کہا کہ آج کے دور میں مواقع ڈیجیٹل ہو چکے ہیں اور ایک خاتون کے ہاتھ میں اسمارٹ فون سب سے بڑا برابری کا ہتھیار ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ دیہی اور کم آمدنی والے علاقوں میں سماجی روایات اور اسمارٹ فون کی قیمت اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی کمیونٹیز میں آج بھی خواتین کے پاس اسمارٹ فون ہونا خطرہ سمجھا جاتا ہے، اور یہ سوچ اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک ہم خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے والد، بھائی اور دیگر فیصلہ سازوں کو بھی شامل نہ کریں۔
ٹیلی کام کمپنیاں قسطوں پر اسمارٹ فون فراہمی اور مقامی زبان میں ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام جیسے حل تجویز کر رہی ہیں تاکہ ان چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹا جا سکے۔