پاکستان

این اے 193 میں پی ٹی آئی کا امیدوار کیوں اور کیسے کامیاب ہوا؟

اگر مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے الگ الگ امیدوار نہ ہوتے تو یہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا تھا

راجن پور( ماینٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی کے ضلع راجن پور کے حلقہ این اے 193 میں پی ٹی آئی کا امیدوار محسن خان لغاری کیوں اور کیسے کامیاب ہوا؟ تمام تر تفصیلات منظر عام پر آگئیں۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے ضلع راجن پور کے حلقہ این اے 193 میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کے امیدوار محمد محسن خان لغاری نے پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)سمیت مدِ مقابل تمام امیدوارں کو شکست دے دی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 11امیدوار اس انتخاب میں میدان میں تھے۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ فارم 47 میں موجود غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریکِ انصاف کے امیدوار محمد محسن لغاری نے 90 ہزار 392 ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدِ مقابل تمام امیدوار مجموعی طور پر 83 ہزار 318 ووٹ حاصل کر سکے۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے اختر حسن خان گورچانی نے 20 ہزار 74 ووٹ، مسلم لیگ(ن)کے عمار احمد خان لغاری نے 55 ہزار 2018 اور تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)کے امیدوار محمود احمد نے تین ہزار 961 ووٹ حاصل کیے۔ اِسی طرح پانچ آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر 4321 ووٹ حاصل کیے ۔

مبصرین کی رائے میں این اے 193 کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا، جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ مقامی صحافی اور مصنف ملک سراج احمد کے مطابق کے یہ نتیجہ غیر متوقع نہیں تھا کیوں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)میں شامل جماعتوں مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے الگ الگ امیدوار میدان میں تھے جس سے علاقے میں یہ بات سننے کو مل رہی تھی کہ پی ٹی آئی یہ نشست باآسانی جیت جائے گی۔ ان کے مطابق توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اگر مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے الگ الگ امیدوار نہ ہوتے تو یہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا تھا۔

ملک سراج احمد نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے لیے حالیہ ضمنی انتخاب ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جس میں پاکستان کی سب ہی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ راجن پور کی سیاست کے اندر حالیہ ضمنی الیکشن میں دریشک، مزاری اور لغاری سرداروں کے جس دھڑے کی سربراہی مینا لغاری کر رہی تھیں، وہ لوگ قدرے دبا میں تھے کیوں کہ مسلم لیگ (ن)کے امیدوار عمار احمد خان لغاری کے والد اویس لغاری کو انتظامیہ کی مبینہ طور پر قدرے مدد حاصل تھی۔ان کے بقول اس ضمنی الیکشن کا اثر آئندہ انتخابات میں بھی نظر آئے گا۔ این اے 193 کی نشست گزشتہ سال دسمبر 2022 میں پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی سردار جعفر خان لغاری کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی، جس پر الیکشن کمیشن نے 26 فروری کو ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اِس حلقے میں پنجاب حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے باعث ضمنی الیکشن ملتوی کرانے کی درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی تھی۔ البتہ یہ درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ صحافی ملک سراج احمد بتاتے ہیں کہ حلقے میں سردار جعفر خان لغاری ماضی میں کسی بھی جماعت سے کھڑے ہوتے تھے تو وہ ایک بڑے مارجن سے جیت جاتے تھے۔ وہ اِس حلقے سے مسلسل چار بار الیکشن جیت چکے تھے۔ اِس حلقے میں کسی بھی جماعت کا ووٹ شہری علاقوں میں تو قدرے ہو سکتا ہے لیکن قبائلی علاقوں میں شخصی ووٹ زیادہ ہے۔

ملک سراج احمد بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں مزاری، دریشک، گورچانی ، لغاری ، کھوسہ، لونڈ، بزدار، کھیترانی اور کھیتران سردار موجود ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لغاری خاندان کی خواتین عمومی طور پر سیاست میں حصہ نہیں لیتی،یہی وجہ ہے کہ سردار جعفر خان لغاری کی بیوہ اور سابق ایم این اے ڈاکٹر مینا جعفر خان لغاری نے اویس لغاری اور دیگر کے فیصلے کے خلاف حالیہ ضمنی انتخاب میں محسن لغاری کی حمایت کی۔

مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن)کے امیدوار سابق صدر پاکستان فاروق احمد لغاری کے پوتے ہیں۔ اِس خاندان کا شمار علاقے کے بڑے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں میں ہوتا ہے۔ اس حلقے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے کاغذات جمع کرائے گئے تھے، جنہیں واپس لے کر محسن خان لغاری کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کیا گیا۔ سال 2018 کے عام انتخابات میں سردار جعفر خان لغاری نے پی ٹی آئی کی طرف سے اس حلقے میں 81 ہزار 358 ووٹ حاصل کر کے یہ نشست اپنے نام کی تھی۔ جب کہ 2018 ہی کے عام انتخابات میں محسن لغاری نپی ٹی آئی کی ٹکٹ پر پی پی 293 سے 45 ہزار 146 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے۔

اٹلی میں کشتی ڈوبنے کی اصل وجہ کیاتھی؟ چونکا دینے والی تفصیل آگئی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button