رجسٹرڈ افغانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا معاملہ، حکومت کی سپریم کورٹ کو بڑی یقین دہانی
رجسٹرڈ مہاجرین کو جاری کیے گئے پی او آر(پروف آف رجسٹریشن) کارڈز کی میعاد تیس جون تک بڑھا دی گئی ہے: وفاقی حکومت کی پاکستانی سپریم کورٹ کو یقین دہانی

اسلام آباد(کھوج نیوز) پاکستان میں موجود رجسٹرڈ افغانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کی مزید کتنی مہلت بڑھا دی گئی؟ اس حوالے سے حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کو بڑی یقین دہانی کروا دی ۔
تفصیلا تکے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ مفاد عامہ کی اس درخواست کی سماعت گی، جو 3 اکتوبر 2023ء کو اپیکس کمیٹی کے اعلان کردہ بڑے پیمانے پر ملک بدری کے فیصلے کے تناظر میں دائر کی گئی تھی۔ یہ درخواست سول سوسائٹی کے کارکنوں کے اتحاد نے دائر کی تھی۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے، سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ تمام افغان مہاجرین جو پاکستان میں پی او آر یا افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) کے بشمول کسی بھی شکل میں اپنی رجسٹریشن کے بعد رہ رہے ہیں، ان کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انہیں پکڑا یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں رہنے والے اے سی سی اور پی او آر کارڈ ہولڈز کی تعداد بالترتیب تقریبا 13 لاکھ اور 7 لاکھ ہے۔
حکومت کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک 784,954غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے آغاز کے بعد سے افغان شہریوں سمیت غیر قانونی غیر ملکیوں کی اکثریت کو واپس بھیجا گیا ہے۔ تاہم، جن غیر ملکیوں کا اندراج کیا گیا ہے، ان کو ملک بدر نہیں کیا جا رہا تھا۔
حقوق انسانی گروپ، افغانستان ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز کمیٹی نے ایک بیان میں پاکستان کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورت حال کو ”بدتر ہوتی ہوئی” قرار دیا ہے اور کہا کہ اس نے ان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ کمیٹی نے پاکستانی حکام کی جانب سے نافذ کیے گئے نئے اقدامات کے نتیجے میں افغان مہاجرین کو درپیش بڑھتی ہوئی ہراسانی، بھتہ خوری اور انتظامی رکاوٹوں جیسے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "قانونی رہائشی دستاویزات کے بغیر افراد خاص طور پر خطرے میں ہیں”۔ "انہیں پولیس سے بچنے پر غیر رسمی طور پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے ان پر بہت زیادہ نفسیاتی اور مالی بوجھ پڑتا ہے، جس سے وہ اپنے خاندانوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔



