کھوج بلاگ

”پاکستانی سیاست پر سموگ کا غلبہ”

فضائی سموگ سے شہریوں کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، گلے اور سانس کی بیماریاں پھیل چکی ہیں اسی طرح پولیٹیکل کوالٹی انڈیکس بڑھنے سے سیاسی آلودگی زیادہ ہو گئی ہے

تحریر:شکیلہ فاطمہ
آجکل مجھے اکثر پاکستانی سیاستدان اداس چہروں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں، اس دشت کے ایک پرانے باسی نے بتایا کہ پاکستانی سیاست آجکل سموگ کی لپیٹ میں ہے اور جس طرح سموگ سے لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس بڑھ جانے سے فضا پرگندگی ہو گئی ہے اسی طرح پولیٹیکل کوالٹی انڈیکس بھی بڑھ جانے سے سیاسی آلودگی زیادہ ہو گئی ہے۔ فضائی سموگ سے شہریوں کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، گلے اور سانس کی بیماریاں پھیل چکی ہیں اسی طرح پولیٹیکل کوالٹی انڈیکس بڑھنے سے سیاسی آلودگی زیادہ ہو گئی ہے اور سیاستدانوں کو اقتدار کی صاف اور آسودہ سیاسی فضا میسر نہ ہونے سے ان کے چہروں پر اداسی اور مایوسی کی دبیز تہہ جم گئی ہے اور اس مایوسی کے عالم میں اب ایک دوسرے کو گالیاں نکالنے کا وقت ہو چکا ہے ۔ اب بڑی سیاسی جماعتیں جو سب آزمائی جا چکی ہیں خاصی پریشان نظر آتی ہیں۔ جس طرح لاہور ہائیکورٹ مسلسل کئی سالوں سے فضائی سموگ کے تدارک کیلئے کوشاں ہے اسی طرح پولیٹیکل سموگ کے تدارک کیلئے بھی کئی بار کوشش کی جا چکی ہے اور اب بھی اسکا علاج جاری ہے لیکن نہ تو ہائیکورٹ کو ابھی تک کامیابی ملی ہے اور نہ ہی سیاسی سموگ کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹروں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اب اسکا علاج ایک نئے طریقے سے کیا جارہا ہے لیکن پرانے مریض بھی بضد ہیں کہ انہیں کسی طرح پولیٹیکل سینیٹوریم میں پھر سے ایک بار داخل کر لیا جائے ممکن ہے افاقہ ہو جائے۔ سیاسی پرندے ایک گھونسلے سے دوسرے گھونسلے میں اڈاریاں مار رہے ہیں۔ کچھ سیاسی اتحاد بنانے کی جہد مسلسل ہو رہی ہے، کچھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے سیاسی سموگ کا علاج معالجہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دشنام طرازی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور ایک مریض جو آجکل سینیٹوریم میں زیر علاج ہیں کی تربیت نے نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کے ذریعے غلیظ ترین دشنام طرازی کا عادی بنا دیا ہے اس کیوجہ سے بھی پولیٹیکل کوالٹی انڈیکس انتہائی پرگندہ ہو چکا ہے اور اس کیلئے اخلاص اور شدید محنت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی سسٹم کو جان بوجھ کر گندہ کیا جاتا ہے پھر اسکی سزا کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جسٹس منیر مرحوم نے جب نظام انصاف کو عدالتی سموگ کی نظر کیا تو اسکی سزا ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ سیاسی سموگ روز اول سے پھیلایا گیا۔ پاکستان وجود میں آیا اور سندھ اسمبلی میں کھوڑو صاحب اور سر حسین سیاسی سموگ پھیلانے میں مصروف تھے جبکہ پنجاب میں یہ کام دولتانہ اور ممدوٹ صاحب سر انجام دے رہے تھے اور پھر اس سیاسی سموگ نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ ایوب خان نے جو عسکری سموگ پھیلائی اسکا بھی علاج نہیں ہو سکا۔ اس مختلف قسم کی سموگ سے ہماری معاشرتی قدریں کھوکھلی ہوتی گئیں، مایوس عوام نے بچے پیدا کرکے آبادی بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی اور سموگ والوں نے وسائل کو سموگ کی نظر کر دیا۔ آج لاہور ہائیکورٹ میں ایک معزز جج سموگ کیس کی سماعت فرماتے ہوئے کئی ریمارکس دئیے یہ معزز جج صاحب کئی سالوں سے سموگ کا علاج کررہے ہیں ، انہوں نے درخت کاٹنے والوں، فصلوں کی باقیات کو جلانے والوں ، دفتروں میں جانے والوں، گاڑیوں فیکٹریوں وغیرہ کے بارے اپنے ریمارکس میں نسخے تجویز کئے لیکن عدالتی سموگ کے بارے ایک لفظ نہیں بولا، انہوں نے کلر کہار کے تاریخی باغ صفا کو کاٹ کر جوڈیشئل کمپلیکس کا حکم دینے والوں کے بارے کچھ نہیں کہا جب سینیٹوریم کے کنٹرولر ہی سینیٹوریم کو برباد کرنا شروع کر دیں تو سموگ کا تدارک کیسے ہوگا ؟ عوام ابھی بھی منتظر ہیں کہ ان تمام سموگوں اور مریضوں کا علاج کب ممکن ہو پائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button