کھوج بلاگ

الیکشن یا احتساب ؟ کیا ضروری ؟

تحریر : شکیلہ فاطمہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کل ایک مختصر سی پریس ریلیز کے ذریعے، ایسے لوگ جنکو جمہوریت اور الیکشنیریا کی بیماری ہے، طفل تسلی دی کہ جنوری کے آخری ہفتہ میں الیکشن کروا دیئے جائیں گے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور جنوری میں تو الیکشن کا انعقاد بالکل ممکن نہیں ہے۔ میں جب الیکشن کے بارے سوچتی ہوں تو مجھے آل شریف، زرداری خاندان، نیازی ٹولہ ہی نظر آتا ہے اور ان کے ساتھ کچھ مولوی، کچھ قوم پرست، کچھ فرقہ پرست، کچھ علاقائیت پسند اور کچھ لسانی گروہوں کے سردار دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکو ہم پچھلے پندرہ سال سے مسلسل دیکھ رہے ہیں جو ملک کی تقدیر کا دعوی کرتے تھے اور الیکشن کے بعد اپنی تقدیر بدلنے اور مزید سنوارنے میں مگن ہو جاتے تھے اور آخرکار ہماری یعنی عوام مجموعی طور پر بھوک ننگ و افلاس کا شکار ہو گئی۔ عوام کو گھٹیا نعروں سے بہلایا گیا۔ طبقاتی تقسیم کو مزید بڑھایا گیا۔ اداروں کو بے توقیر اور بے عزت کیا گیا، انصاف اور انصاف کے نظام کو تباہ اور کرپٹ کیا گیا، معاشرے کے ہر طبقہ میں تقسیم کے عمل سے بدمعاش پیدا کئے گئے۔ ریاستی وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا، بیرون ملک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے دھڑا دھڑ قرضے لئے گئے اس کے علاوہ اندرونی قرضوں کا گراف بھی تیزی سے اوپر لے جایا گیا۔ پبلک سیکٹر میں چلنے والے ادارے پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز ، کے الیکٹرک، واپڈا، آبی وسائل اور پی ایس او سب کو مقروض کیا گیا اور انکا خسارہ ان کی اصل مالیت سے بڑھ گیا۔ ملکی وسائل کی بندر بانٹ کی گئی، صنعت کو تباہ کیا گیا، زراعت جو پاکستان کی ترقی کی ضامن ہے کو سازش کے تحت تباہ کیا گیا اور اب حالات یہ ہیں کہ پاکستانی عوام کسی صورت افریقہ کے کسی غریب ترین ملک سے بہتر زندگی نہیں گذار رہے۔ ہم بحیثیت قوم سب کے مقروض ہیں ، ہم اپنے لیڈروں کے مقروض ہیں کہ انہوں نے ہماری جمہوریت کا تحفظ فرمایا، قرضے لیکر موٹروے بنایا لیکن غربت میں اضافہ فرمایا۔

آج ایم 2 پر لاہور سے اسلام آباد تک ایک ہزار ایک سو روپے کار کا ٹول ٹیکس ہے ، میں ہفتہ میں دوبار اس پر سفر کرتی ہوں اور اس طرح صرف 4400 روپے ایک ہفتہ کا ٹول ادا کرتی ہوں یہ ٹیکس 1997 جب سے یہ بنا ہے تب سے بھر رہی ہوں اور اب ایک نئی سیڈان کار کی قیمت کے برابر ٹول ادا کر چکی ہوں۔ لیکن میرے گاوں کی نہر ، راجباہ، کھال ، بنگلے اور کھیت تباہ ہو گئے ہیں اور یہ احسان مجھ پر میرے لیڈرز نے کیا ہے مجھے ڈکٹیٹرز سے بچایا ہے اور مجھے بھوک ننگ افلاس دی ہے، مجھے کرپشن دی ہے، مجھے چوری چکاری راہزنی ڈاکہ زنی، سٹریٹ کرائم دیا ہے مجھے انصاف کی جگہ بے انصافی دی ہے مجھے سرکاری ملازمین کی جگہ دلال دیئے ہیں، میں انکی مشکور ہوں کہ انہوں نے جمہوریت کو بچایا ہے۔دوسری طرف یہی سب رہنما جنکا اوپر شکریہ ادا کیا ہے اب سب کے خلاف چوری، دھوکہ دہی، منی لانڈرنگ، ملکی دولت لوٹنے، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ملک دشمنی، وطن فروشی، اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کے تحت مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور سابق چیف جسٹس کے آخری عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے نیب ٹرکوں لے ٹرک ایسے مقدمات کا دوبارہ احتساب عدالتوں میں منتقل کر رہا ہے جنکو ختم کروا لیا گیا تھا اور قانون کو تبدیل کر کے احتساب عدالتوں کو فارغ کر دیا تھا اور سب نے پھر جمہوریت کو بچانے کیلئے کمریں کس لی تھیں۔ کچھ دبئی میں، کچھ لندن میں اور کچھ اوسلو میں بیٹھ کر ہمارے لئے جمہوریت کو بچانے، ہماری خوش حالی اور روشن مستقبل جسکو انہوں نے خود تاریک کیا، کے منصوبے بنا رہے تھے بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ ایک بار پھر مافیاز کی طرح دنیا کے مختلف حصوں میں بیٹھ کر یہ جمہوری ڈان اس ریاست پاکستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ اچانک ریکارڈ ٹرکوں پر لاد کر احتساب عدالتوں میں پہنچا دیا گیا۔

کل ایک دانشور فرما رہے تھے کہ گیارہ سو میں چار سو کو نااہل کر دیں گے تو جمہوریت کیسے چلے گی ؟ واہ میرے عظیم دانشور مجھے یہ بتاو ان گیارہ سو کے ہوتے کیا جمہوریت چل رہی تھی ؟ ہاں آپ کیلئے تھی کیونکہ آپکو بطور رشوت ایک محکمہ کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ اب اگر اسی نظام اور انہی چہروں کے ساتھ الیکشن کروانا ہے جو بوسیدہ نظام اور بھیانک ظالم چہرے ہیں تو خدا را ایسی جمپوریت عوام پر ایک بار پھر مسلط نہ کیجائے۔ ان سب کامنصفانہ احتساب کیا جائے فوری انصاف کیا جائے لوٹی ہوئی ملکی دولت واپس لائی جائے اور ایسے تمام مجرموں کو تاحیات نااہل کیا جائے۔ نیا نظام انتخاب لایا جائے جو جمہوری تقاضوں پر پورا اترتا ہو اور نئے چہروں کو آگے لایا جائے۔ تمام صوبوں میں یکساں طرز کا بلدیاتی نظام لایا جائے جو ایک مضبوط نظام ہو اور وہ مقامی سطح کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، ایم پی اے ، ایم این ایز اور سینیٹرز کو مقامی سطح کے ترقیاتی منصوبوں سے دور رکھا جانے اور وہ صرف قانون سازی کا کام کریں۔ اب 24 کروڑ کی قسمت حافظ صاحب اور قاضی صاحب کے ہاتھ میں ہے دیکھتے ہیں یہ ہاتھ ان مجرموں کے گریبانوں تک پہنچتے ہیں یا پھر انکو تھپکی دینے کیلئے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن ایک بات پکی ہے کہ الیکشن جنوری 2024 میں نہیں ہونگے اور اگر اب بھی احتساب نہ ہوا تو پھر ملک بکھر جایا کرتے ہیں۔ روس یوگوسلاویہ وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button