کھوج بلاگ

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کا بطور قاضی عدالت عظمی آخری فیصلہ

تحریر : شکیلہ فاطمہ
عمر عطا بندیال ولد فتح خان بندیال سکنہ موضع بندیال تحصیل قائد آباد ضلع خوشاب بطور چیف جسٹس آف پاکستان اور جج سپریم کورٹ کل 16 ستمبر کو 65 سال کے عمر پوری ہونے پر ریٹائر ہو رہے ہیں اور آج 15 ستمبر 2023 کو انہوں نے اپنے منصب منصفی کا آخری فیصلہ دیا ہے جو ان کی زندگی کا بھی آخری عدالتی فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ سابق پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم سے متعلق ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ نیب قانون میں ترامیم کر کے اس قانون کو لایعنی اور بے اثر بنا دیا گیا تھا اور پھر تمام وہ سیاستدان اور بیورو کریٹ جن پر اربوں روپے کی چوری، ڈاکہ زنی اور ریاست کا خون چوسنے کا الزام تھا سب کے مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال لئے گئے اور ایسے تمام بدمعاشیہ کے نمائیندے پاک صاف ہو کر عوام کو امانت دیانت شرافت صداقت کا سبق پڑھانے کیلئے گلے پھاڑ پھاڑ کر بھاشن دینے لگ گئے۔ آصف زرداری سے لیکر شہباز شریف تک اور شرجیل میمن سے لیکر خواجہ برادران تک سب نیک سیرت اور اعلی و ارفع کردار کے مالک اور ریاست پاکستان کے باسیوں کے مسیحا ٹھہرے۔

آپ نے ایک عام کہاوت سن رکھی ہوگی کہ حجاج بن یوسف سقفی ،(جو انتہائی ظالم شخص تھا اور اسکا چہرہ اتنا بھیانک کہ وہ ماسک پہن کر رکھتا تھا)کو اگر اللہ پاک نے بخشا تو اسکی وجہ اسکا واحد کام قران پاک پر اعراب لگوانا ہوگا تاکہ عربی سے ناواقف لوگ بھی قران پاک کو درست پڑھ سکیں۔ اسی طرح میری رائے ہے کہ اگر اللہ پاک نے عمر عطا بندیال کو بخشنے کا فیصلہ کیا تو اسکی واحد وجہ اسکا یہ نیب ترامیم سے متعلق دیا گیا فیصلہ ہوگا۔ یہ بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن اور منصور علی شاہ پر مشتمل تھا، منصور علی شاہ کو رویہ شروع دن سے نظر آ رہا تھا کہ انکو کرپشن چوری ڈاکہ زنی منی لانڈرنگ اور غربت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن بندیال صاحب اور جسٹس اعجازالاحسن ڈٹے رہے اور آج فیصلہ سنا دیا گیا۔ یہ فیصلہ بالکل امیدوں کے مطابق 1 کے مقابلے میں 2 کی اکثریت سے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے اہم نکات میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ اور حکمران طبقے کی طرف سے قومی خزانے کو لوٹنا، رشوت ستانی، کک بیکس، منی لانڈرنگ، چوری اور ڈکیتی کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی مان لیا گیا ہے اور یہ درست ہے۔

اگر میرے اور میرے بچوں کے منہ سے یہ اشرافیہ نوالہ چھین لے، تعلیم کا حق چھین لے، صحت اور علاج معالجہ کی سہولت چھین لے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی پر ڈاکہ نہیں ہوگا، منصور علی شاہ صاحب کا استدلال درست نہیں رہا یا پھر وہ جان بوجھ کر بغض معاویہ میں ایسے ڈاکوں چوریوں کو جائز قرار اور قابل معاغظہ نہیں سمجھتے تھے۔ میں عمر عطا بندیال کی سب سے بڑی ناقد رہی ہوں انہوں نے جس طرح سپریم کورٹ کو چلایا، ججز میں تقسیم پیدا کی اور ایک خاص پارٹی کے ورکر طرح فیصلے دیئے۔ عام عوام کو نظر انداز کر خاص لوگوں کے مقدمات تیزی سے روزانہ کی بنیاد پر سننا اور کچھ ایسے مقدمات کو اہمیت دینا جو سرے سے مقدمہ کی تعریف پر پورے ہی نہیں اترتے تھے کو بھی بڑھا چڑھا کے سننا، اپنے خاندان کے مقدمات سننا اور خاص طور پر اپنی ہی ساس کے خلاف کمیشن کو انکوائری سے روک دینا اور فیصلہ صادر کرنا کہ ساس کا مقدمہ جج سن سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ لکھنا اور آئین کا مذاق اڑانا وغیرہ وغیرہ، مجھے حجاج بن یوسف سقفی کی طرح انکی زندگی میں ایماندار منصف ہونے کا تاثر کبھی نہیں ملا۔ لیکن اگر حجاج سے اللہ پاک نے قران پاک پر اعراب لگوا کر ایک عظیم کروایا تو اسی طرح عمر عطا بندیال سے بھی آخری فیصلہ چوروں ڈاکووں، جھوٹوں اور لٹیروں کے خلاف دلا کر ہمیں بتا دیا کہ اللہ کی ذات کسی سے کوئی بھی کام کروا سکتی ہے۔ نیب قانون میں خود کو فائدہ پہنچانے کے ملزمان نے جو ترامیم کی تھیں انکو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ ایسے تمام کیس 7 دن کے اندر احتساب عدالتوں میں واپس بھیجے جائیں اور ان پر کاروائی کیجائے۔

یقین کیجئے ان ملزمان میں رحمان عرف رحموں، سفیق عرف لماں نام کا کوئی چور ڈاکو نہیں ہے اس جو نام ہیں وہ ہمارے ملک کی اشرافیہ ہے جو ہر الیکشن کے نامزدگی کاغذات میں صادق و امین ہوتے ہیں ان میں جناب آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف، ڈاکٹر عاصم ، عبدالغنی اومنی گروپ، راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم اور موجودہ سپیکر قومی اسمبلی، جناب خاقان عباسی صاحب جنہوں نے پی آئی اے کا بیڑہ غرق کر کے اپنی بہن کے ساتھ ملکر ائیر بلیو کے کاروبار کو پھیلایا۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق، سلمان شہباز اور ان سب کے شریک ملزمان اور کچھ دیگر ان کے سہولتکار شامل ہیں ۔اب نگران وزیر اعظم، حافظ صاحب اور قاضی صاحب کا امتحان ہے کہ کیا وہ چوروں، ڈاکووں، لٹیروں، قومی خزانے کو لوٹنے والوں، جزیرے خریدنے والوں، لندن، دبئی، سپین ، آسٹریلیا، امریکہ، کینیڈا ، ناروے، سویڈن اور ترکی میں محلات خریدنے والوں اور ملک سے دولت لوٹ کر بھاگنے والوں کو واپس لا کر عوام کا پیسہ واپس لیتے ہیں یا پھر بجلی کے کنڈے اتار کر بل دینے والوں سے کنڈے اتارنے کا خرچہ بھی وصول کرتے ہیں۔ ؟

اللہ پاک نے ان تینوں کو وہ موقع دیا ہے جو اس ملک میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ اللہ کے احکامات اور غریب عوام کی بھوک ننگ افلاس بے بسی کو دیکھتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح ملمع کاری فرما کر عوام کو مزید ظلمت کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں ؟ ابھی انتظار کرنا ہوگا ، بہر حال میں تو پرامید ہوں اگر بندیال سے اللہ ایسا فیصلہ کروا سکتا ہے تو حافظ و قاضی کی تو شہرت بھی اچھی ہے اور ان کے کریڈٹ پر پہلے بھی اچھائیاں اور اچھے فیصلے موجود ہیں اور قوم کا درد بھی ان کے دل میں ہے۔
”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button