پاکستان

پنجاب اور کے پی کے انتخابات کیس، فیصلہ محفوظ، آج سنائے جانے کا امکان

الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا یے؟قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا،عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے،چیف جسٹس کے ریمارکس

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر، آن لائن)سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا آج منگل کو سنابا جائے گا دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا ء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا،عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے،1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے،عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے،کیا نئے بنچ کی تشکیل کے وقت چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے۔

جس عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اقلیتی ہے،تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں،اختلافی نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا،بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ چار ججز کو بینچ سے نکالا گیا،نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے،کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے،کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا،عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے،ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے،ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں،عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں،زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ فیصلہ کا نہیں،ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں،سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا،فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں،184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے،سرکلر میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی،مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے،جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا، فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے،29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے،عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے،فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے،بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں،عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا،دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں،سپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے،ازخود نوٹس کے لئے بنچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا،ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے،اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے،جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کاروائی روک دیں؟184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا،کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے،سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا،سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے،تمام پندرہ ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، وفاقی حکومت نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، زیادہ سے زیادہ استدعاء فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے،کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا،9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا،27 فروری کے نو ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟

عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی،جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا یے،فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں،گزشتہ تین دن میں سینیر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں ،لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں،ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے،بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے،سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے،سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے،کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا یے،نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے،جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دیا گیا کیا وہ پانچ رکنی بینچ میں تھے؟ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے،بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے،الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ سٹیشنز محفوظ ہیں،فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا،عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو،کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے،کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے،سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟سوال یہ ہے کہ اٹھ اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟ سکیورٹی سے متعلق رپورٹس حساس ہیں تو سر بمپر لفافوں میں فراہم کریں،جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گیے،کوئی سوال ہوا تو اسکا جواب مانگ لیا جائے گا،فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے،الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی،الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا،جن علاقوں میں سیکورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں،الیکشن کمیشن نے پنتالیس فیصد پولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے،جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں،جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے،حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے،حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گیے۔عدالت فیصلہ کرے،چار سو پچاس ارب روپیے خرچ نہ ہونے کیوجہ اخراجات میں کمی ہے،ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں،جسٹس فائز عیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے،زیر بحث معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گیے،جسٹس فائز عیسی نے ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں،رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی،عرفان قادر نے کیس سے متعلق اہم نکات اٹھائے ہیں،جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں،جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں،بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عمومی بات کی اپ کو نہیں کہا تھا، پورے ملک کی طرح عدالت کے اندر اور باہر ماحول خراب ہے،ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی،یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا،حکومت میں شامل جماعتوں نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے،آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا ،عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا ،کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں،عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے،سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے،اکرم شیخ تیاری سے آئے تھے ان کے موکل نے ان کو بولنے نہیں دیا،اٹارنی جنرل نے اس نقطے پر گفتگو نہیں کی،اٹارنی جنرل سے گلہ ہے کہ وہ 3/4 پر ہی زور دیتے رہے،اس نقطے پر اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں ،ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں،وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں،انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا،عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے،حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی،حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی،ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے،ماضی میں حالات مختلف تھے،ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے،رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی زمہ داری وفاقی حکومت کی تھی، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے،عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے،الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا،سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا ،آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں،مذاکرات کی آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا ،لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں،لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں،6 ججز والی بات اٹارنی جنرل اور عرفان قادر نے کی،عدالت نے بات سنی اس پر ردعمل نہیں دیں گے،پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں،بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔

عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ فاروق نائیک سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اپ نے بائیکاٹ ختم کر دیا ہے،فاروق نائیک نے بتایا کہ مین نے بائیکاٹ نہیں کیا اس پر عدالت نے پوچھا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیا ، فاروق نائیک نے موقف اپنایا کہ مجھے نہیں پتا کس نے بائیکاٹ کیا ہے،جسٹس منیب اختر نے پوچھا اپ کیسے بینچ پر اعتراض بھی کر سکتے اور سماعت کا حصہ بھی رہ سکتے ہیں، اخبارات تو کچھ اور کہہ رہے ہیں ، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بینچ کے دائرہ اختیار اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں،جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر کہا کہہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں،ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلایل کیسے دے سکتے ہیں،اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں،چید جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں،فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں،ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زباں اس میں استعمال کی گئی ہے،ایڈووکیٹ کامران مرتضی نے اسوقع پر عدالت کو بتایا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر فریقین کے وکلائ کو کہا کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں اور اگر بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے اس موقع پر کہا کہ وکلالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکلالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے۔اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت انا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔

اٹارنی جنرل نے اس موقع پر دلائل اپنائے کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے سمیت صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے،درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے،فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا ،گورنر کے پی کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی، پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا ،21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا،دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ،دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں،جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا،جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا،الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی، جسٹس منیب اختر نے کہا جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس نو رکنی بینچ کے پاس جائے گا,فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا،نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا،نوٹ کے مطابق ہی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی، دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا،چار آرائ کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں،مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے،حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں،رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے،سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا،عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے،عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا،184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں،ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے،موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا زکر ہے،موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے،رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے،جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کریں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا،جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے پوچھا آپ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں،اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا فل کورٹ کی استدعاء جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا، چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا فل کورٹ کی استدعاء فی الوقت مسترد کی تھی۔

اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا لارجر بینچ کی استدعاء آگے جاکر کروں گا،جو ججز نو رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے ،3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے،آج صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے،سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں،حساس معاملہ ہے سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے،الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لچھ وجوہات بتائی ہیں،چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا حساس معلومات نہیں لیں گے ۔مجموعی صورتحال بتا دیں،فلحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ کے پی کے میں ابھی تاریخ ہی نئیں،کیا پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ر حمود الزمان نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں، وہ کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتے،نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے پوچھا ان چیمبر سماعت پر آپکا کیا موقف ہے؟ کر پر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں،سیکورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں،سیکورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت نوے دن کی ہے،ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔ ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے،ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے،ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر سیکرٹری دفاع سے کہا اپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حساس معاملات کو سمجھتے ہیں۔پبلک نہیں ہونے چاہیں،نیشنل سیکورٹی اہلکاروں، عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا،اس مقدمے میں سیکورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں،پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں۔

پی ٹی آئی کے راہنماء اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ پہلے پانچ ماہ میں 5700 ارب روپیے خرچ ہو چکے ہیں،ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپیے پر مشتمل ہے،آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے،بیس ارب روپے 0.02فیصد زیادہ نہیں ہے،خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی 4.97فیصد ہے،بیس ارب روپیے کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں،ترقیاتی اخراجات سات سو ارب روپیے ہیں۔ابھی تک چار سو پچاس ارب روپیے خرچ ہونا باقی ہیں،حکومت نے اٹھ ماہ میں صرف دو سو ارب روپیے خرچ کیے ہیں،ترقیاتی اسکیموں کے لیے حکومت نے مزید اٹھ ارب روپیے ترقیاتی اخراجات میں شامل کیے ہیں،کیسے ممکن ہے سات سو ارب روپیے کے بجٹ سے اکیس ارب روپیے نہ نکالے جاسکتے ہوں،آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اس موقع پر عدالت سے استدعا کیا کہ ہمار موقف سن لیں پھر سیکرٹری سے بات کرلیں،اور اگر عدالت ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتادیں، چیف جسٹس نے عرفان قادرسے پوچھا آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کرلیا ہے، عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بنچ سے الگ ہوجاتے ہیں،ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں،بنچ سے جانبداری منصوب کی جارہی ہے،پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے، فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے،پتہ پتہ بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے،عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے ،عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے ،فالحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا،میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا،ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو،الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہئے ،فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہیئے ،9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں ،3 ججز نے حکم جاری کیا، یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا،عدالت اس تنازعہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے،فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہین ہے،درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے،سرکولر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا،چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے،عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے،ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے،قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں یے،آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے،ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں،ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں ،ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی،قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری یے،صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہی، قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں یے،آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے،ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں،ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں ،ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی،قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری یے،صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہی ،ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں،خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے،پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں،صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں،صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے،صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے،الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے،ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے، میں سوشل میڈیا کی بات کر رہا تھا،اس وقت جناب چیف جسٹس سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہیں،چیف جسٹس کے حق میں درخواستوں پر دستخط ہورہے ہیں، چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں اندرونی تنازعہ کو حل کیا جائے،184/3 تنازعہ حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے۔

ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن مے معذرت کی،چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے دو ججز کے نوٹ کے خلاف ہے،ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ عدالت میں دلائل دینا چاہتے ہیں،پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں ہے، جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر کہا کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟مسکم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ بات نہ سن کر میری عدالت میں تزلیل ہورہی ہے،مزید اپنی تزلیل نہیں کراوں گا، عدالت کی معاونت کیلئے پیش ہورہے ہیں،کوئی پارٹی مجھے غیر قانونی کام کرنے کا کہے تو کیا میرا اپنا دماغ نہیں کہ فیصلہ کرسکوں،عدالت کا بیحد احترام کرتے ہیں، میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں؟ن لیگ سے کوئی فیس نہیں لی،عدالت نے کبھی مجھے مایوس واپس نہیں بھیجا۔ ایڈووکیٹ کامران مرتضی نے موقف اپنایا کہ میں گورنر کا بھی وکیل تھا سیاسی جماعت کا بھی وکیل ہوں۔مفادات کے ٹکراو کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ شیخ صاحب اپ کے ساتھ کامران مرتضیٰ اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں،اپ ذاتی حیثیت میں نہیں ائے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے،ن لیگ کے ٹویٹر اکائونٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کردیا، بیرسٹر علی ظفر نے جواب الجواب میں موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر کسی نے بات نہیں،الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا ،الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا،الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218/3 کا حوالہ دیا،آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے،الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا،الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا،کے پی کے میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے،کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا،بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے،الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وسائل مل جائیں تو الیکشن کیلئے تیار ہیں،سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار ہے،عدالت عظمی نے اس موقع پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے فیصلہ آج منگل کو سنایا جائے گا۔

میانی صاحب میں تدفین کیلئے فیس وصول کا معاملہ، درخواست دائر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button