کھوج بلاگ

ایک غیر ضروری خط یا پتلی گلی سے فرار کی کوشش ؟

تحریر: شکیلہ فاطمہ
صدر مملکت کا راجہ سلطان سکندر چیف الیکشن کمشنر کو لکھا گیا خط ایک غیر ضروری مشق ہے کیونکہ صدر مملکت الیکشن کمیشن کو اعلی عدلیہ سے رجوع کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے ایسا کوئی اختیار آئین میں موجود نہیں ہے۔ میرے مطابق صدر کو قومی اسمبلی توڑے جانے کیصورت میں 90 دن کے اندر الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار آئین میں حاصل ہے لیکن یہ صورت نارمل حالات میں ہوتی ہے اگر آئین اسمبلی کے وجود کیلئے حلقہ بندی کو ضروری قرار دے اور پھر مردم شماری کے حتمی نتائج جاری ہو چکے ہوں تو سب سے پہلے اسمبلی کی نشستوں کے مطابق برابر آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندی ضروری ہے کیونکہ الیکشن صرف 90 دن میں کروانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ آئین اور قانون کے مطابق کروانا لازم ہوتا ہے۔ سنگل ممبر حلقہ کی بنیاد پر ہونے والے الیکشن کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ہر حلقے کے ہر ووٹ کی ویلیو ایک جیسی ہو، یہ اصول بنیادی اصول کے طور پر ساری دنیا میں مانا جاتا ہے ۔ ون مین ون ووٹ اور ایف پی ٹی پی کے نظام کے تحت ہر ووٹ کی ویلیو برابر ہونا لازم ہے ورنہ جمہوریت کا بنیادی اصول کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔

اگر لاہور کا ایک ووٹ حافظ آباد کے 2 ووٹوں کے برابر ہو اور حافظ آباد کے ڈھائی ووٹ خوشاب کے ایک ووٹ کے برابر ہوں تو یہ جمہوریت نہیں ہے اور نہ ہی آئین اسکی اجازت دیتا ہے۔ اگر برابری کے اصول کی خلاف ورزی کر کے الیکشن خواہ 60 دن یا 90 دن میں کروائے جائیں تو ایسے الیکشن جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر مبنی ہونگے اور اگر الیکشن آئین اور قانون کے مطابق نہ ہوں تو اس کے نتائج بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ہونگے اور ایسے نتائج کی بنیاد پر وجود میں آنے والی اسمبلیاں بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ہونگی جن کی کوئی عزت و تکریم نہیں ہو گی۔

مجھے افسوس ہوتا ہے جب قانون سے نابلد اینکرز ، رپورٹرز اور وہ قانون دان جو سیاسی جماعتوں کے رکن یا حمایتی ہیں ٹیلیویژن ٹاک شوز میں صرف 90 دن کی دلیلیں دیتے ہیں اور ان کے مخالفین آئین کو پس پشت ڈال کر صرف الیکشن ایکٹ کو معتبر ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔ اس طرح دونوں دھڑے یہ بھول جاتے ہیں کہ آئین کو 90 دن سے نہیں پڑھا جاتا بلکہ آئین کی روح کو پڑھا جاتا ہے اور دوسرے طبقے کو بھی علم ہونا چاہیئے کہ آئین کو ایکٹ وغیرہ پر برتری حاصل ہوتی ہے ۔ دراصل آئین میں ہمارا نظام جمہوریت کی بنیاد پر دیا گیا ہے جس میں ون مین ون ووٹ اور سنگل ممبر حلقہ کو بنیاد بنایا گیا ہے اب اگر آئین اسکو بنیاد بناتا ہے تو پہلے اس بات کا اہتمام آئینی تقاضا ہے کہ ہر حلقہ برابر آبادی کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے جس میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد کی کمی بیشی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اسکا واضح مطلب ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس سے پہلے بھی حافظ آباد ضلع کے 2 ووٹ لاہور ضلع کے ایک ووٹ کے برابر ہیں اسی طرح خوشاب کا ایک ووٹ حافظ آباد کے 2 ووٹوں سے بھی زیادہ ویلیو رکھتا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے ؟ یہ جمہوریت کی سنگین خلاف ورزی اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے حتمی نتائج کے مطابق صرف پنجاب کے اضلاع پر نظر ڈالیں تو 4 اضلاع ایسے ہیں جن کی ایک ایک نشت کم ہو جائے گی اور 4 اضلاع ایسے ہیں جن کی ایک ایک نشست بڑھ جائے گی اور اگر نہیں کیا گیا تو حلقے برابر آبادی کے اصول کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ لہذا پہلے برابری کی بنیاد پر حلقہ بندی بمطابق آئین لازم ہوگی اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو الیکشن 90 دن میں کروائیں یا پھر 9 سال میں کروائیں ، غیر آئینی ہوگا۔ یہ درست ہے کہ صدر کو آئین میں الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار ہے لیکن موجودہ صورتحال میں حلقہ بندی کے بعد کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ لیکن صدر مملکت الیکشن کمیشن کو ایسی نصیحت آئین کے مطابق دینے کا اختیار نہیں رکھتے کہ کمیشن کسی عدالت سے رجوع کرے یا پھر کسی دیگر فورم سے رائے لے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اسکو اگر عدالت سے رجوع کرنا ہے تو وہ بہتر سمجھتا ہے اسے صدر مملکت کی نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری نام نہاد سیاسی اور برائے نام جمہوری پسند پارٹیاں آئینی اور قانونی معاملات کو بھی سیاسی بنا دیتی ہیں۔ ہمارا موجودہ نظام انتخاب فرسودہ ہو چکا ہے اور آزادی سے لیکر آج تک ایک بھی الیکشن دھاندلی سے پاک نہیں ہوا لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت جب بھی برسر قتدار آئی اس نے نظام بدلنے سے مجرمانہ انحراف کیا کیونکہ نظام بدلنے اور اصل جمہوریت لانے میں ان کے مفادات مجروع ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے نظام بدلنے کی بجائے سیاست اور راج نیتی کے چکر میں رہتے ہیں۔ سب بوٹیاں کھانے کے چکر میں رہتے ہیں لیکن مرغی کو زندہ رکھنے کی تدبیر سے گریزاں ہیں اور جب اپنی اپنی مرغیاں ذبح کر کے کھا جاتے ہیں تو پھر عوام کو ہی مرغی سمجھ کر زبح کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہمارے لیڈر جمہوریت پسند نہیں بلکہ راج نیتی اور راج پسند واقع ہوئے ہیں۔ بہر حال صدر مملکت کا خط بنام راجہ سلطان سکندر ایک غیر ضروری خط ہے اور صدر کی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش اور اپنی سیاسی پارٹی کو خوش کرنے اور غیر ضروری بحث کا آغاز کرنے کی سوچی سمجھی سکیم ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button