کھوج بلاگ

سیاست ، معیشت اور حافظ صاحب

تحریر: شکیلہ فاطمہ
ہمارے ملک کی سیاست کے سب سے بھیانک اثرات معیشت پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ آج ہر طرف بھوک ننگ افلاس کا دور دورہ ہے اور یہ بلاشبہ ہماری بیمار جمہوریت اور نام نہاد سیاست کا کارنامہ ہے۔ اس بحث سے ہٹ کے کہ ایسی جمہوریت اور نام نہاد سیاست کس کی دی ہوئی ہے۔ گدھوں کو گھوڑا کس نے بنایا۔ نظام انتخاب ہمیشہ کمزور کیوں رہا۔ آج تک اس جمہوری ملک میں دھاندلی سے پاک منصفانہ الیکشن کیوں نہ ہو سکے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ آج ہر سرکاری عہدیدار خواہ جس بھی منصب پر فائز ہے وہ کرپٹ ہو چکا ہے اس کے اندر حب الوطنی کی جگہ جب الزر لے چکا ہے وہ اخلاقیات، دین سب کچھ بھول کر مال و دولت کا غلام بم چکا ہے۔ میرے ملک میں انصاف بک چکا ہے اخلاقیات کا جنازہ پڑھایا جا چکا ہے نظریہ پاکستان صرف پانچویں کلاس کی مطالعہ پاکستان کی کتاب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ، سیاست تجارت سے ایک قدم آگے بڑھ کر ڈاکہ زنی تک پہنچ گئی ہے ۔ اور ڈاکو لندن ، دبئی، اوسلو، نیویارک چلے گئے ہیں اور اب نگرانوں کو گالیاں دے کر اور ایکدوسرے کو برا بھلا کہہ کر پھر سے دکان سجانے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ عدالت عظمی کے منصف دست و گریبان ہیں اور پارٹی بازی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ انصاف سر بازار نیلام ہو رہا ہے۔ 24 کروڑ میں سے کم از کم 23 کروڑ خط غربت کی لکیر کو چھو چکے ہیں۔ اور عوام کی سکت جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنے میں سخت دشوای کا سامنا کر رہی ہے۔ بے حیائی ، بت پرستی یعنی شخصیت پرستی عروج کو پہنچ چکی ہے ، مغربی برائیاں جیسے ہم جنس پرستی کو پھیلایا جا رہا ہے اسلامی افکار کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ، ایسے حالات میں ہمارے پاس جینے کی امید تک ختم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اسی دور پر آشوب میں ایک حافظ آیا ہے جو صاحب اختیار بھی ہے اور اسکا فرض بھی ہے کہ وہ ملک کو اس ناسور سے پاک کرے۔ اس نے اسکا بیڑا بھی اٹھایا ہے۔ اب ڈالروں کے چور ، چینی کے چور ، آٹے کے چور، بجلی اور گیس کے چور ڈھڑا دھڑ سامنے آ رہے ہیں ایسے لگتا ہے کہ یماری بیمار جمہوریت نے صرف اسی کام کو فروغ دیا ہے۔ اب حافظ صاحب کے ساتھ قاضی صاحب بھی آ رہے ہیں ۔ اور عوام دونوں سے دست بدستہ التجا کرتی ہے کہ ہمیں جمہوریت نہیں روٹی کپڑا مکان تعلیم اور صحت چاہیئے۔ ہمیں عزت سے زندہ رہنے کا حق چاہیئے۔ اب ان دونوں کا فرض ہے کہ خدا را گند کو صاف کریں۔ بجلی چوری کا ہر ایس ڈی او کو پتہ ہے وہ اب بھی بڑے مگر مچھوں کو پکڑنے سے گریزاں ہیں اب بھی کنڈے غریبوں کے اتارے جارہے ہیں پرچے غریبوں پر کٹ رہے ہیں۔ خدا کے واسطے حافظ صاحب ان بڑی مچھلیوں کو بھی پکڑیں جو دس دس اے سی چوبیس گھنٹے چلاتے ہیں اور چوری کی بجلی دھڑلے سے جلاتے ہیں۔ سمگلنگ، منشیات فروشی، ذخیرہ اندوزی ، چوری اور کرپشن یہ وہ ناسور ہیں جنکی وجہ سے آج قوم غربت کے اندھیروں میں دھنس چکی ہے ۔ حافظ صاحب آپ کے سینے میں قرآن ہے اور قرآن کا حکم ہے کہ برائی کا خاتمہ بزور بازو کریں اور اللہ نے آپ کے بازو کو زور سے بھی نوازا ہے۔ 23 کروڑ کی دعائیں لیں اس ملک کو بچا لیں۔ شدت پسندی، علاقائیت ، نسل پرستی یہ سب بھوک کی دی ہوئی ہیں ایسے بد بختوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اور حافظ صاحب اگر آپ ان برائیوں کا خاتمہ بلاامتیاز کرتے ہیں اور ان برائیوں میں ملوث بد بختوں اور ان کے سہولتکاروں کو الٹا لٹکاتے ہیں اور ان کے پیٹ سے غریبوں اور ملک کا لوٹا ہوا مال واپس لیتے ہیں تو یقین کیجئے آپ ہی ریاست مدینہ بنانے والے ہونگے۔ اور یہ 23 کروڑ آپکی غلامی کریں گے۔ سوشل میڈیا پر یہی بھوکے ننگے آپکی جنگ لڑیں گے اور پاکستان کا نام معتبر ملکوں میں شمار ہوگا۔ میری دعا ہے کہ آپ کو اللہ پاک استقامت اور عزم مصمم دے اور پاکستان صحیح معنوں میں ایک فلاحی اسلامی مملکت بن جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button